Sunday, July 07, 2024

 

بلی جتنی تمیز تو سیکھو

 



بلی جتنی تمیز تو سیکھو

فصل اول
میری آنکھ سویرے کھل گئی۔ کمرے میں اندھیرا تھا مگر کھڑکی سے باہر روشنی نظر آرہی تھی۔ میرے ساتھی مسافر ابھی سو رہے تھے۔ رات بہت دیر تک تاش کی بازی جاری رہی تھی اور اسی وجہ سے وہ دیر سے سوئے تھے۔ میں بستر سے اٹھا اور دبے قدموں چلتا گھر سے باہر آگیا۔ باہر آتے ہی ایک خوشگوار احساس نے میری روح کو مسحور کردیا۔ کراچی کی آلودہ فضا کے مقابلے میں یہاں ہوا میں نکھار تھا۔ دریا کے پانی کا شور یہاں تک سنائی دیتا تھا۔ میں آہستہ قدم اٹھاتا دریا کی طرف چلنا شروع ہوگیا۔ دریا کے پاس پہنچ کر میں دیر تک چنچل دھاروں کا نظارہ کرتا رہا۔ پتھروں اور چٹانوں کے بیچ دریا کا پانی خوبصورتی سے اپنا راستہ بنا رہا تھا۔ مجھے دریا کے کنارے ایک بڑا پتھر نظر آیا۔ اگر اس پتھر پہ بیٹھ کر میں دریا میں اپنے پائوں ڈالوں تو کس قدر مزا آئے۔ اسی ارادے کی تکمیل کے لیے میں نیچےاترنا شروع ہوگیا مگر بڑے پتھر کے قریب پہنچ کر ٹھٹھک گیا۔ وہاں انسانی فضلہ پڑا تھا۔ طبیعت مکدر ہوگئی۔ فرحت بخش ہوا اور مچلتے کنہار کے نظارے کا سحر ٹوٹ کر چکنا چور ہوگیا۔ یہ کون انسان نما جانور تھا جس کو اتنی تمیز بھی نہ تھی جتنی بلی کو ہوتی ہے؟ یہ بات کسی قدر یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ مذکورہ حیوان مقامی باشندہ تھا۔ اس مقامی کو اتنی سمجھ نہیں تھی کہ جس نظارے کے مزے لینے سیاح وہاں آتے ہیں اور رقم خرچ کرتے ہیں اور اسی سیاحتی آمدنی سے اس کا بھی روزگار کسی نہ کسی طور سے وابستہ ہے، اس منظر کو پرکشش رکھنے میں اس کا مفاد بھی پوشیدہ ہے۔



This page is powered by Blogger. Isn't yours?