Saturday, October 28, 2017
جھول
ایک دوست کے ساتھ سفر کررہا تھا۔ ہم
دونوں ایک جگہ ٹھیلے سے پھل لینے کے لیے رکے۔ قیمت پہ مول تول شروع ہوئی۔ قیمت
زیادہ تھی مگر ٹھیلے والے کا اصرار تھا کہ اس کا مال بہترین تھا اور واقعی اس کے
آم عمدہ تھے۔ کچھ بحث و تکرار کے بعد میں آم خریدنے پہ راضی ہوگیا مگر میرے دوست
نہ مانے۔ ان کا کہنا تھا کہ ٹھیلے والا انہیں ٹھگ رہا تھا۔ اسی سفر میں اس دوست کے کہنے پہ نماز کی ادائیگی
کے لیے ایک مسجد پہ رکے۔ نماز پڑھ کر باہر نکلے تو ایک فقیر نے سوال کیا۔ ہمارے
دوست نے فورا پانچ کا نوٹ اسے پکڑا دیا۔ کچھ فاصلے سے ایک اور فقیر نے یہ ماجرا
دیکھا تو وہ بھی بھاگا بھاگا آیا اور ہمارے دوست کے سامنے گڑگڑانے لگا۔ دوست نے اس
فقیر کو بھی پانچ روپے دے دیے۔ جب تک ہم لوگ گاڑی تک پہنچے وہاں چار پانچ فقیر اور
پہنچ چکے تھے۔ ہمارے دوست نے نہایت فیاضی سے ان سارے فقیروں میں رقم تقسیم کی اور
ہم لوگ آگے بڑھ گئے۔
اس رات بستر پہ لیٹے میں نے پورے
دن کے بارے میں سوچا تو ان دونوں واقعات نے مجھے بہت کچھ سوچنے پہ مجبور کیا، یعنی
ہمارے دوست کی پھل والے سے ایسی لیچڑ مول تول اور فقیروں کے ساتھ اس قدر فیاضی۔ ہماری
اخلاقی اقدار کا جھول مجھ پہ واضح ہوگیا۔ ہمیں مال بیچنے والے غریب لوگ پسند نہیں
ہیں، ہمیں وہ تنگدست غریب لوگ پسند ہیں جن کے پاس کچھ نہ ہو اور جنہیں ہم خیرات دے
کر اپنے لیے جنت کما سکیں۔