Monday, February 21, 2011
خدا کا گھر اور قبضہ مافیا
چند دن پہلے امریکہ کے کسی دور دراز علاقے سے ایک فون آیا۔ فون کرنے والے کو نہ جانے کس نے میرا نام اور فون نمبر دے دیا تھا۔ فون کرنے والے نے مدعا بیان کیا کہ اس کے فون کرنے کا مقصد مجھ سے ایک مسجد اور کمیونٹی سینٹر کی تعمیر کے سلسلے میں چندہ اکھٹا کرنا تھا۔
"کیا اس کمیونٹی سینٹر میں بچوں کو ساءنس کی تعلیم دی جاءے گی؟" میں نے پوچھا۔
"کیا مطلب؟" فون کرنے والے نے کسی قدر تعجب سے پوچھا۔
"مطلب یہ ہے کہ یہ مسجد اور کمیونٹی سینٹر کس نوعیت کے ہوں گے؟ یہاں کس برانڈ کا اسلام پڑھایا جاءے گا؟ کیا یہاں بچوں کو ستار بجانا سکھایا جاءے گا؟ کیا دیگر آلات موسیقی کی تعلیم دی جاءے گی؟ کیا فوٹوگرافی کی کلاسیں ہوں گی؟ کیا مصوری سکھاءی جاءے گی؟"
میرے ان سوالات نے اس شخص کو واضح طور پہ پریشان کر دیا تھا۔
"یہ آپ کس قسم کی باتیں کر رہے ہیں؟" اس نے جواب میں صرف اتنا کہا۔
"بھاءی، میں آپ سے بالکل سیدھی سچی باتیں کر رہا ہوں۔ میں کسی ایسی مسجد، کسی ایسے اسلامی کمیونٹی سینٹر کی مالی اعانت نہیں کرنا چاہتا جو میرے اسلام کو حقارت سے دیکھے۔ جس کا انتظام تنگ نظر لوگ سنبھال لیں۔ میں دھڑلے سے موسیقی سنتا ہوں، خوب تصویریں کھینچتا ہوں، اور فلمیں بھی بناتا ہوں، اور ان سب باتوں کے ساتھ اپنے آپ کو خدا کا محبوب بندہ سمجھتا ہوں۔ اب اگر کوءی شخص اپنے تنگ نظر خیالات کے ساتھ میرے اس انداز زندگی کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہے، اور الٹا مجھے حقارت کی نظر سے دیکھتا ہے تو کیا مجھے پاگل کتے نے کاٹا ہے کہ میں اس شخص کو مذہبی معاملات میں اپنا سربراہ مانوں اور مذہبی قیادت کے حصول میں اس کی مدد کروں؟"
اس قسم کی کھری کھری باتیں شاید اس شخص کو کسی اور جگہ سے سننے کو نہیں ملی تھیں۔
"مجھے ان باتوں سے سروکار نہیں کہ مسجد اور کمیونٹی سینٹر میں کیا ہوگا۔ اللہ کی راہ میں ایک مسجد بن رہی ہے اور ہم سب کو اس کار خیر میں حصہ لینا چاہیے۔ یہ ثواب کا کام ہے۔" اس نے توجیہہ پیش کی۔
"بھاءی، اللہ کی راہ میں ایک مسجد تو بن رہی ہے اور مسجد یقینا اللہ کا گھر ہے مگر آخر کار اللہ کے اس گھر کا انتظام کسی انسان کو ہی چلانا ہے تو میری دلچسپی یہ جاننے میں ہے کہ اللہ کے اس گھر پہ کن خیالات کے لوگ قبضہ کریں گے۔ اس مسجد کا چودھری کون بن کر بیٹھےگا؟ اگر آپ مجھ سے کسی اسکول کے لیے چندہ مانگیں تو کیا مجھے یہ جاننے کا کوءی حق نہیں ہے کہ اسکول کو کن خطوط پہ چلایا جاءے گا، وہاں کس قسم کی تعلیم دی جاءے گی؟ مجھے یقینا یہ معلوم کرنے کا حق ہے۔ بالکل اسی طرح مجھے یہ معلوم کرنے کا حق ہے کہ کیا آپ جو مسجد اور کمیونٹی سینٹر بنانے جا رہے ہیں وہاں مسلمانوں کو کوڑوں، سنگ ساری، قطع ید اور گردن زنی کے خیالات میں الجھا لیا جاءے گا یا یہ مسجد اعلان کرے گی کہ سلمان تاثیر کا قاتل ممتاز قادری مسلمانوں کے نام پہ ایک سیاہ دھبہ ہے۔"
میں نے کچھ ٹہر کر اس شخص کو بات کرنے کا موقع دیا مگر دوسری طرف مکمل خاموشی رہی۔
اچھا، آپ دوسری باتیں چھوڑیں۔ یہ بتاءیں کہ کیا آپ مسجد کی انتظامیہ میں شامل ہوں گے؟" میں نے پوچھا۔
اس آدمی نے کچھ سوچ کر اثبات میں جواب دیا۔
"کیا آپ موسیقی کو حرام سمجھتے ہیں؟"
"جی ہاں" اس نے کھل کر کہا۔
"بس، یہ بات طے ہو گءی کہ آپ کو اس گھر سے ایسے کسی اسلامی کمیونٹی سینٹر کے لیے چندہ نہیں مل سکتا جس کی انتظامیہ میں آپ کے خیالات جیسے لوگ شامل ہوں۔"
دوسری طرف کچھ دیر کے لیے خاموشی رہی۔ مگر آدمی ڈھیٹ تھا۔ اس نے کہا،
"اچھا، اگر آپ ثواب کے اس کام میں شریک نہ ہونا چاہیں تو آپ کی مرضی ۔ لیکن کیا آپ مجھے اپنا ای میل پتہ دیں گے؟ اگر میں آپ کو مسجد کی تعمیر کے سلسلے میں ایک ای میل بھیجوں تو کیا آپ براءے مہربانی اسے آگے اپنے دوستوں تک بڑھا دیں گے؟"
"ہرگز نہیں۔" میں نے دو ٹوک جواب دیا۔ "میرا خیال ہے کہ آپ میرے مکالمے کی سنجیدگی کو نہیں سمجھ پاءے ہیں۔ میں ایسا کوءی کام نہیں کروں گا جس سے اسلام میں فساد پھیلانے والے لوگ آگے آءیں یا انہیں پھلنے پھولنے کا موقع ملے۔ اگر میں نے کسی طرح ان لوگوں کی اعانت کی اور انہیں اوپر آنے کا موقع دیا تو کل یہی لوگ مجھے مارنے، میرا گھر جلانے آءیں گے۔ تو میں کیوں چاہوں گا کہ طاقت حاصل کرنے میں آج ان لوگوں کی مدد کروں جو مستقبل میں اسی طاقت کے ذریعے میرا بیڑا غرق کر دیں؟"
دوسری طرف جلدی سے فون رکھ دیا گیا۔
تصویر بشکریہ:
http://www.arounddublinblog.com/