Tuesday, January 11, 2011
یہ کالا قانون از خود توہین رسالت ہے
تعزیرات پاکستان میں قوانین اپنے شمار سے جگہ پاتے ہیں، مثلا تعزیرات پاکستان سیکشن ایک سو پانچ، دو سو دس، وغیرہ۔ وقت گزرنے کے ساتھ کسی بھی قانون کو اس کے شمار کے بجاءے ایسے نام سے یاد کیا جانے لگتا ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ وہ قانون کس جرم کی مد میں تشکیل دیا گیا تھا۔ تعزیرات پاکستان سیکشن دو سو پچانوے ج ایک ایسا قانون ہے جسے عرف عام میں توہین رسالت قانون کہا جاتا ہے۔ شاید کچھ لوگ ایسے ہوں جو تعزیرات پاکستان سیکشن دو سو پچانوے ج کو توہین رسالت قانون اس خیال سے کہتے ہوں کہ اس قانون کے ذریعے بظاہر ان لوگوں کی سرکوبی کی جا سکتی ہے جو توہین رسالت کے مرتکب ہوں، مگر میرے جیسے بہت سے لوگ توہین رسالت قانون کو اس کے اس نام سے اس لیے پکارتے ہیں کیونکہ یہ قانون از خود توہین رسالت ہے۔ وہ برگزیدہ ہستی جسے ہم رحمت اللعالمین کے لقب سے یاد کرتے ہیں، یہ قانون اس پاک ہستی کے نام پہ پاکستانی معاشرے میں فتنہ پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ قانون لوگوں کو ڈرانے دھمکانے کے لیے، ان کی جاءداد و مال پہ قبضہ کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں اس قانون کو جن مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے انہیں دیکھتے ہوءے تعزیرات پاکستان سیکشن دو سو پچانوے ج کو توہین رسالت قانون کے بجاءے طریقہ استحصال اقلیت قانون کہا جاءے تو شاید زیادہ مناسب ہو۔
آج سے چودہ سو سال پہلے کا زمانہ اور تھا اور آج کا وقت کچھ اور ہے۔ آج سے چودہ سو سال پہلے لوگ چھوٹی چھوٹی آبادیوں میں قبیلوں کی صورت میں رہتے تھے اور ہر قبیلہ اپنے لوگوں کی حفاظت کا کام خود کرتا تھا۔ معاشرتی ڈھانچہ کسی مرکزی نظام حکومت یا قانونی نظام کا متحمل نہ ہوسکتا تھا۔ معاشروں میں تعزیرات کسی کتابی شکل میں نہ تھے کہ ملزم کو پکڑنے کے بعد قرار واقعی سزا مل سکے۔ پولیس کا نظام نہ تھا۔ لوگ اپنے طور پہ ملزم کو پکڑ کر قبیلے کے بڑے کے سپرد کردیتے تھے، پھر وہ شخص اپنی عقل و حکمت سے جرم کی سزا مقرر کرتا تھا۔ اس بات کا امکان ہوتا تھا کہ اگر مجرم کو پکڑ کر زید کے حوالے کیا جاءے تو زید ملزم کو بری کر دے، اور اگر اسی ملزم کو بکر کے حوالے کیا جاءے تو بکر اپنی حکمت سے ملزم کو پھانسی چڑھا دے۔ آج کی دنیا میں لوگ ایسے معاشروں میں رہتے ہیں جہاں قوانین تعزیرات کی کتابی شکل میں ہوتے ہیں۔ پولیس کا نظام موجود ہے۔ ملزم کو پولیس کے حوالے کیا جاتا ہے، پھر ایک عدالتی کارواءی ہوتی ہے جس میں اچھی طرح چھان پھٹک ہوتی ہے کہ آیا ملزم پہ لگایا جانے والا الزام درست ہے یا نہیں۔ اگر الزام درست ہے تو تعزیرات پڑھ کر ملزم کو قرار واقعی سزا دی جاتی ہے۔ بہت سے ترقی پذیر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی اور دوسرے نظاموں کی طرح عدالت کا نظام بہت اچھے طریقے سے کام نہیں کرتا مگر ذمہ دار شہری اس صورت میں نظام کو بہتر بنانے کے لیے کام کرتے ہیں، قانون اپنے ہاتھ میں نہیں لے لیتے۔ ممتاز قادری ایک گمراہ مسلمان ہے، اور ایک مجرم ہے۔ ممتاز قادری کا جرم یہ ہے کہ وہ اطمینان سے ایک ایسے معاشرے میں رہنا چاہتا ہے جہاں قانون کی بالادستی ہو تاکہ کوءی چپکے سے آکر ممتاز قادری کو مار کر نہ چلا جاءے لیکن اگر ممتاز قادری کو کوءی بات بری لگے تو ممتاز قادری سرکار کی طرف سے دی جانے والی بندوق اٹھا کر اسے چلانے میں عار نہیں کرتا۔ ممتاز قادری نے ماوراءے قانون ایسا جرم کیا ہے جو تمام جراءم میں سب سے زیادہ گھناءونا ہے یعنی کسی انسان کی جان لینا۔ ممتاز قادری ایک گھٹیا انسان ہے کہ اس نے اس شخص کی جان لی کہ جس کی جان کی حفاظت پہ ممتاز قادری خود معمور تھا۔
سلمان تاثیر ایک بہترین انسان تھے کہ انہوں نے معاشرے کے کمزور طبقات کے حق میں آواز اٹھاءی تھی، کہ انہوں نے ببانگ دہل ایک کالے قانون کو کالا قانون کہا تھا۔ اب سلمان تاثیر کے پیغام حق سے وفاداری کا یہی طریقہ ہے کہ تعزیرات پاکستان دو سوپچانوے ج کو مستقل کالا قانون ہی کہا جاءے اور اس توہین رسالت قانون کی تنسیخ کی کوششیں تیز تر کر دی جاءیں۔
تصویر بشکریہ:
http://www.amenews.org
Labels: a low-life criminal, Aasia Bibi, Mumtaz Qadri, Salman Taseer raised voice for the underprivileged elements of the society, Section 295 C of Pakistan Penal Code is itself a blasphemy