Wednesday, December 28, 2016

 

لائوس میں داخلہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار تین سو تیرہ

 دسمبر پچیس، دو ہزار سولہ


لائوس میں داخلہ



ایک خوشی، نئے ملک جانے کی۔ موہانگ کے لیے بس میں سوار ہیں مگر ابھی بس چلنے میں کچھ وقت ہے۔ کیوں نہ اس وقت کا اچھا استعمال کیا جائے اور چین سے ایک آخری پوسٹ کارڈ ڈالا جائے؟ بہت سالوں بعد جب وطن پہنچنے پہ یہ پوسٹ کارڈ ہاتھ میں لیے جائیں گے تو ان کو پکڑنے پہ بہت سالوں پہلی وہ لمس محسوس ہوگی جو اس پوسٹ کارڈ کے ساتھ ایک دوسرے ملک سے وابستہ رہی تھی۔
ہم موہانگ پہنچنے تک سخت بے قرار رہے۔ اگر ہمیں سرحد پار کرنے کی اجازت نہ ملی تو کیا ہوگا؟ ہمیں فورا واپس پلٹنا ہوگا اور برما کی سرحد تک پہنچنا ہوگا تاکہ ایک دن میں ویزے کی مدت ختم ہونے سے پہلے چین چھوڑ کر برما میں داخل ہوجائیں۔
مگر ہمارے خدشات بے بنیاد ثابت ہوئے۔ سرحد پہ چینی چوکی میں ہمارے پاسپورٹ الٹ پلٹ کر دیکھے گئے۔ اس طرح کے پاسپورٹ والا کوئی شخص وہاں دور دور نہ پایا جاتا تھا۔ ایک افسر نے دوسرے افسر کو ہمارے پاسپورٹ میں موجود دخول کی وہ مہر دکھائی جو ظاہر کرتی تھی کہ ہم پاکستان سے زمینی راستے سے چین میں داخل ہوئے تھے۔ ایک دفعہ پھر ہمیں اوپرسے نیچے تک دیکھا گیا اورپھر زور زور سے پاسپورٹ میں ٹھپے لگائے گئے، اور ہمیں چین چھوڑنے کی اجازت مل گئی۔
چینی سرحدی چوکی کے اس پارموجود وسیع منطقہ ممنوعہ [نومینز لینڈ ] کو ہم نے ایک سوزوکی پک اپ کی مدد سے پار کیا اور لائوس کی سرحدی چوکی تک پہنچ گئے۔ بہت سے لوگ ہم سے آگے چلے جارہے تھے۔ وہ سب چینی نظر آتے تھے جو شاید مختصر مدت کے لیے لائوس سیر کی نیت سے جارہے تھے۔ جب یہ چینی سیاح وہاں سے روانہ ہوگئے تو چوکی پہ ہماری باری آئی۔ ایک بار پھر ہمیں اور ہمارے پاسپورٹ کو حیرت سے دیکھا گیا مگر فورا ہی اس میں داخلے کا ٹھپہ لگا دیا گیا۔
لائوس پہنچنے پہ ایک خوشگوار احساس ہوا تھا۔ گھنے بن باراں کو خوبصورت بادل چوم رہے تھے اور موسم حسین تھا۔ کسی نئی جگہ پہ آپ کا اس سے اچھا استقبال کیا ہوسکتا ہے؟
سرحد سے لگے لائوس کے قصبے کا نام بورتین تھا۔ بورتین کی ٹوٹی پھوٹی سڑکیں دیکھ کر اندازہ ہوتا تھا کہ لائوس چین کا غریب ہمسایہ ہے۔
اس چھوٹے سے گائوں میں روڈ کے دونوں طرف دکانیں تھیں۔ ان دکانوں میں زیادہ تر سامان چین کا بھرا ہوا تھا۔ لگتا تھا کہ لائوس کے وہ شہری جو چینی مال چین کی سرحد سے قریب ترین پہنچ کر خریدنا چاہتے تھے وہ بورتین پہنچ کر یہ خریداری کرتے تھے۔
ابھی پورا دن باقی تھا اور بورتین ایک بہت چھوٹی جگہ تھی۔  ہم بورتین میں دن ضائع کرنے کے بجائے وہاں سے آگے نامتھا جانا چاہتے تھے۔ وہیں ہماری نظر ایک سیاح پہ پڑی جو اپنے حلیے سے جاپانی یا خوشحال چینی معلوم دیتا تھا۔ ہماری اس سے بات چیت شروع ہوگئی۔ وہ جاپان کا رہنے والا ناکاساوا تھا۔ ناکاساوا بھی انگریزی کی مشق کا خواہشمند تھا۔ وہ ہمارے ساتھ ہولیا اورویان چیانگ تک ہمارے ساتھ رہا۔
نامتھا جانے والی بس چلنے میں ابھی کچھ دیر تھی۔ ہم ناکاساوا کے ساتھ کھانے پینے کا انتظام کرنے میں مصروف ہوگئے۔ اسی سلسلے میں ہم ایک ریستوراں کے باورچی خانے میں گھس گئے اور ہاتھ کے اشارے سے وہاں موجود لوگوں کو بتانے لگے کہ کس چیز کو کس کے ساتھ ملا کر ہمارے لیے کھانا تیار کیا جائے۔  مگر ابھی یہ اشارے بازی شروع ہی ہوئی تھے کہ شور مچ گیا کہ نامتھا کے لیے گاڑی روانہ ہونے والی تھی۔ ہم نے ہاتھ کے اشارے سے باورچی خانے میں موجود لوگوں سے معافی مانگی اور پھر وہی ہاتھ ہلا کر انہیں خدا حافظ کہا اور باہر آگئے۔ ناتھا جانے والی گاڑی دراصل ایک بڑی پک اپ تھی۔ اس کا انتظام کرنے والا شخص مائو کیپ پہنا ہوا تھا؛ وہ ہم سے فرانسیسی میں باتیں کرنا چاہتا تھا۔ لائوس فرانسیسی کالونی رہی ہے اس لیے وہاں کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ ہر بدیسی پرانے آقائوں کی زبان بولتا ہے۔
بورتین سے نکلنے کے کچھ ہی دیر بعد روڈ کا نام و نشان جاتا رہا۔ اب ہر طرف جھاڑیاں تھیں اور جھاڑیوں کے درمیان صاف جگہ اس بات کی نشاندہی کررہی تھی کہ کسی زمانے میں وہاں روڈ رہی ہوگی۔ بہت فاصلے سے کہیں سڑک کا نشان بھی مل جاتا تھا مگر آنجہانی سڑک کی وہ نشانی بھی بڑے بڑے گڑھوں سے مزین ہوتی۔ ڈرائیور مہارت سے گاڑی کو ان گڑھوں سے بچاتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا۔
اس انتہائی سادہ پک اپ میں اس خراب روڈ پہ چلنے کی تکلیف کے باوجود ہمیں وہ سفر بہت اچھا لگا۔ ہمیں احساس تھا کہ ہم ایسی جگہوں سے گزر رہے تھے جو اب تک سیاحوں کے غول سے محفوظ تھیں۔ وہاں آبادی خال خال تھی۔ ہر طرف جنگل تھا۔ آسمان بادلوں سے لدا ہوا تھا، مگر سورج کچھ کچھ دیر بعداپنا منہ دکھا دیتا تھا۔

Labels: , ,


Monday, December 26, 2016

 

ام چالے چالا ، چنگ چن چالے چالا

 
ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار تین سو بارہ

 دسمبر سترہ، دو ہزار سولہ


ام چالے چالا ، چنگ چن چالے چالا



بس کو اگلے روز صبح سویرے مونگ لا کے لیے روانہ ہونا تھا جہاں سے ہم کو موہانگ جانا تھا اور پھر وہاں سے چین اور لائوس کی باہمی سرحد عبور کرنا تھی۔  اگلے روز نہ جانے کس وقت ہماری گھڑی کا الارم بولا، اور ہم کب تیار ہو کر روانہ ہوئے۔ اگلا منظر یہ تھا کہ ہم مونگ لا جانے والی بس میں سوار تھے اور بس ربر کے باغات میں سے گزررہی تھی۔ وہاں قطار در قطار توانا درخت تھے، جن کے تنوں پہ لگے چیرے کے نیچے ربر جمع کرنے کے لیے ڈبے لٹکے ہوئے تھے۔ صرف ڈیڑھ سو سال پہلے ربر کے درخت صرف برازیل میں پائے جاتے تھے اور دنیا بھر میں ربر کی برآمد کی وجہ سے پرتگال ایک عالمی طاقت تھا۔ اگر ربر برازیل کے استوائی علاقوں میں اگ سکتا ہے تو دنیا کے دوسرے استوائی علاقوں میں کیوں نہیں اگ سکتا؟ برطانیہ کے جاسوسوں نے برازیل سے ربر کے بیج چرائے اور درخت کو کامیابی سے تاج برطانیہ کے زیر اثر استوائی علاقوں میں لگانے کا کام کیا۔ پرتگال کی عظمت کا سورج ڈوبا، اور تاج برطانیہ کا سورج اور اوپر چڑھا۔
وہ سب بن باراں [رین فارسٹ] کا علاقہ تھا۔ اس علاقے میں اکثریت دائی نسل لوگوں کی تھی جو اپنے گھر لکڑی کے اونچے پٹھوں پہ بناتے ہیں کیونکہ اکثر و بیشتر ان کے اطراف ہر جگہ بارش کا پانی کھڑا ہوجاتا ہے۔
مونگ لا پہنچنے پہ معلوم ہوا کہ اگلی معقول بس سویرے موہانگ کے لیے روانہ ہوگی۔  یوں تو موہانگ جانے کے لیے ایک بس رات کو بھی چلتی تھی مگر اندیشہ تھا کہ رات وہاں پہنچتے پہنچتے اتنی دیر ہوجائے گی کہ سرحدی چوکی بند ہوچکی ہوگی۔
ہم بس اسٹاپ کے قریب ہی ایک ہوٹل میں ٹہر گئے۔ ہمیں ایک ایسا کمرہ ملا جس کا رخ قصبے کی مصروف سڑک کی طرف تھا۔ رات ہوئی تو وہ روڈ ایک زبردست مارکیٹ بن گئی۔ فٹ پاتھ پہ قطار سے چھابڑے والے بیٹھے تھے۔ حیرت انگیز طور پہ چین کے اس انتہائی جنوبی حصے میں ویگر لوگ کافی تعداد میں موجود تھے۔ اس بازار میں کباب بنائے جارہے تھے،اور مچھلی اور مرغی بھونی جارہی تھی۔ مچھلی اور مرغی کو بھوننے کا طریقہ یہ تھا کہ گوشت کو بانس کی کھپچیوں میں پھنسا کر آگ پہ تاپا جارہا تھا۔ مگر ظلم یہ تھا کسی فٹ پاتھی تھڑے پہ چاول دستیاب نہ تھے۔ روٹی یا چاول کا انتظام آپ خود کریں۔
وہ چین میں ہمارا آخری دن تھا۔ ہم چین چھوڑنے پہ خوش بھی تھے اور ناخوش بھی۔ خوش اس لیے کہ چین میں سیاحوں کے ساتھ جو لوٹ مار مچی تھی اب اس فساد سے ہماری بچت ہونے والی تھی، اور ناخوش اس لیے کیونکہ اتنے دن چین میں گزارنے کے بعد اب ہم وہاں سے ایک انسیت محسوس کررہے تھے۔ ہم چین سے روانگی سے پہلے وہاں کی آواز کو اپنے ساتھ باندھ کر لے جانا چاہتے تھے۔ ان دنوں چین میں ایک گیت بہت مقبول تھا۔ یہ پھڑکتا گانا ہم نے کئی جگہ سنا تھا۔ اب اتنے سالوں بعد اس گیت کی یاد ہماری نوٹ بک میں لکھے گئے گیت کے ان بولوں کے ساتھ رہ گئی ہے: ام چالے چالا ، چنگ چن چالے چالا۔ ہم کیسیٹ کی ایک دکان میں پہنچے اور اسے ام چالے چالا ، چنگ چن چالے چالا گا کر سنایا۔ اس پہ دکاندار نے ہم سے بہتر آواز اور موسیقیت میں ام چالے چالا ، چنگ چن چالے چالا گایا اور پھر کچھ چینی زبان میں پوچھا۔ اس سوال کا یہی مطلب ہوسکتا تھا کہ کیا تم اس گانے والا کیسیٹ خریدنا چاہتے ہو؟ ہم نے جلدی سے اثبات میں سر ہلایا۔ دکاندار نے شیلف پہ رکھے کیسٹ کی قطار میں سے ایک کیسیٹ نکال کر ہمیں پکڑا دیا اور ہم اس کیسیٹ کی قیمت ادا کر کے دکان سے باہر آگئے۔ اس واقعے کو بیس سال سے اوپر ہوچکے ہیں۔ نہ جانے وہ کیسیٹ کہاں ہے۔ خیال ہے کہ وہ کیسیٹ اب تک کراچی میں ہمارے سامان میں کہیں رکھا ہے اور اگر ہم کبھی اس کیسیٹ کو رواں کر کے سنیں گے تو ام چالے چالا ، چنگ چن چالے چالا  والا گیت ہمیں کھینچ کر یادوں کی ایک ایسی گلی میں لے جائے گا جہاں چین میں گزارے چالیس دنوں کا ایک ایک لمحہ فلم کی صورت دیواروں پہ دوڑ رہا ہوگا۔




Wednesday, December 14, 2016

 

بابو جی دھیرے چلنا










ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار تین سو گیارہ

 دسمبر گیارہ، دو ہزار سولہ


بابو جی دھیرے چلنا


 
کنمنگ سے جنگ ہانگ جانے کا سب سے ارزاں طریقہ بس کی سواری تھا۔ اس بس سروس کا چینی زبان میں جو بھی نام تھا، اس کا انگریزی سے اردو ترجمہ سوتی بس بنتا تھا۔ یہ نام تشویشناک تھی۔ ہمارے ذہن میں بس ڈرائیور کے خراٹے اور پھر کچھ ہی دیر میں بس کی زوردار ٹکر کا خاکہ ابھرتا رہا۔ مگر اس تمام پریشانی کے باوجود ہم اس سوتی بس میں سوار ہوگئے جس کا سفر چوبیس گھنٹے کا تھا۔
سفر میں بعض ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں جو آپ کو دیر تک پریشان رکھتے ہیں۔ اس بس میں بھی ایسا ہی ایک واقعہ پیش آیا۔ ہم بس میں سوار ہوئے تو ہماری نظر ایک دیسی آدمی پہ پڑی۔ وہ ایک چینی لڑکی کے ساتھ تھا۔ چین کے اس دور دراز قصبے میں اپنی طرف کے آدمی کو دیکھ کر ہم چونکے۔ وہ بھی ہمیں دیکھ کرچونکا تھا۔ پھر کچھ ہی دیر میں وہ اور اس کی ساتھی لڑکی بس سے اتر گئے۔ ہمارا خیال تھا کہ وہ دونوں بس چلنے سے پہلے واپس آجائیں گے مگر ایسا نہ ہوا اور بس کنمنگ سے چل دی۔ وہ آدمی کون تھا اور اس نے ہمیں دیکھ کر سفر کا ارادہ کیوں تبدیل کردیا؟ ہم دیر تک اس بارے میں سوچتے رہے۔
کنمنگ سے جن ھانگ کا راستہ طویل مگر بے حد خوب صورت تھا۔ ہم لوگ بن باراں میں داخل ہوگئے تھے۔ وہاں گھنا جنگل تھا اور وقفے وقفے سے بارش ہوجاتی تھی۔ راستے میں ایسے پہاڑ ملے جن پہ قدرتی جنگل کو مکمل طور سے صاف کردیا گیا تھااور اب وہاں فصلیں اگائی جارہی تھی۔ پہاڑوں پہ چڑھتے اترتے ہمیں کیلے اور پپیتے کے درخت نظر آئے اور گنے کے کھیت بھی۔
راستے میں ایک جگہ ایک شخص ہاتھی لے جاتا ہوا بھی نظر آیا۔ اگر فیل بان کا ذکر ہو تو ہمارے ذہن  میں ہمیشہ برصغیر سے تعلق رکھنے والے آدمی کا خیال آتا تھا۔ یہاں چینی نسل کے آدمی کو ہاتھی کے ساتھ دیکھنے کا مشاہدہ خوب تھا۔
بس مختلف چھوٹے چھوٹے قصبوں سے گزری۔ کھانے کے وقت وہ کسی قصبے میں کچھ دیر کے لیے ٹھہر جاتی تھی۔ ایسی ہی ایک جگہ ایک دلچسپ واقعہ پیش آیا۔ بس کے زیادہ تر مسافر بس سے باہر کھڑے بے زاری سے ڈرائیور کی واپسی کا انتظار کر رہے تھے۔ پھر نہ جانےکہاں سے ایک نوسر باز آ دھمکا۔ وہ ہمارے سامنے فرش پہ بیٹھ گیا۔ اس نے ایک کالے گٹکے کو ایک ڈھکن کے نیچے رکھا اور پھر تین مختلف مگر ایک رنگ کے ڈھکنوں کو تیزی سے فرش پہ گھمانے لگا۔ جب اس نے ان ڈھکنوں کو گھمانا روکا تو تماش بینوں کو دعوت دی کہ وہ شرط لگائیں کہ گٹکا کونسے ڈھکن کے نیچے تھا۔ شرط رقم کے ساتھ لگنی تھی۔ اگر شرط لگانے والا  شرط ہار گیا تو شرط کی رقم نوسر باز کی اور اگر جیت گیا تو نوسرباز شرط کی رقم کی دوگنی رقم شرط لگانے والے کو دے گا۔ سودا برا نہ تھا اور نوسر باز اس قدر آہستہ ڈھکنوں کو حرکت دے رہا تھا کہ یہ پتہ چلانا مشکل نہ تھا کہ گٹکا کس ڈھکن کے نیچے ہے۔ مگر نوسرباز کی ایک خاص ترکیب یہ تھی کہ جب ڈھکنوں کی حرکت روکنے کے بعد شرط لگانے والا اپنی جیب سے شرط کی رقم نکالتا تو شرط لگانے والے کا دھیان بٹنے پہ نوسرباز ڈھکنوں کو ایک بار پھر حرکت دے دیتا۔ نوسرباز کی یہ چالاکی لوگوں نے دیکھ لی تھی اور اب لوگ رقم نکالتے وقت شرط والے ڈھکنے پہ اپنا پائوں رکھ دیتے۔ کچھ لوگوں نے نوسرباز سے رقم جیتی۔ شاید یہ لوگ نوسرباز سے ملے ہوئے تھے۔ پھر ہمارے ساتھ سوار ایک مسافر خاتون نے لمبی رقم شرط پہ لگا دی۔ وہ اپنا مال ذرا سی دیر میں دوگنا کرنا چاہتی تھی۔ مگرجب عورت نے ڈھکنوں کی حرکت رکنے پہ ایک ڈھکن پہ اپنی جوتی رکھی، اپنے پرس سے رقم نکالی اور شرط والا ڈھکن الٹا گیا تو گٹکا وہاں موجود نہ تھا۔ عورت شرط ہار گئی تھی۔ نوسرباز نے سرعت سے عورت کے ہاتھ سے شرط کی رقم لے لی۔ وہاں کہرام مچ گیا۔ عورت نے رونا پیٹنا شروع کردیا۔ وہ زاروقطار رو رہی تھی۔ اس نے سخت غصے میں نوسرباز کو پکڑ لیا اور رقم کی واپسی کا تقاضہ کرنے لگی۔ نوسرباز اتنی دیر میں رقم اپنی جیب میں ڈال چکا تھا۔ اب وہ رقم اس کی تھی۔ گرما گرمی بڑھی اور تماش بینوں کا اشتیاق بھی۔ کچھ لوگ عورت کی حمایت میں نوسرباز سے الجھنے لگے۔ بات دکھم پیلی تک آئی تو نوسرباز نے آگے بڑھ کر ایک دکان کے سامنے پڑا ایک تیزدھار بغدا اٹھا لیا۔ لوگ ڈر گئے۔ پھر وہ نوجوان نوسرباز اپنی قمیض سیدھی کرتا ہوا تیز قدموں سے وہاں سے روانہ ہوگیا۔ دھینگا مشتی میں اس کی قمیض کے بیشتر بٹن ٹوٹ چکے تھے۔ مگر اس نے عورت سے اچھی رقم بنائی تھی اور وہ ایسی کئی قمیضیں خرید سکتا تھا۔
بس کی روانگی کا اعلان ہوا اور کچھ ہی دیر میں بس چل پڑی۔ بس کے اندر، ٹھگی جانے والی عورت کی ایک سہیلی تیز آواز میں متاثرہ عورت پہ بگڑتی رہی۔ شاید وہ لٹ جانے والی عورت کو لعن طعن کررہی تھی کہ اس نے ایسی بے وقوفی کی حرکت کیوں کی۔
بس ساری رات چلتی رہی۔ صبح ہونے پہ وہ ایک جھونپڑی پہ رکی۔ وہ کیفے پھونس شکل کا بس اڈہ تھا۔ اس دور افتادہ جگہ پہ کھانا آرڈر دینے کا ایک ہی طریقہ ہمیں سمجھ میں آیا۔ ہم  باورچی خانے میں گھس گئے اور وہاں موجود اجزائے ترکیبی کو دیکھ کر ہاتھ کے اشارے سے بتایا کہ کس چیز کو کس کے ساتھ ملا کر کھانا تیار کرو۔ اس دوران زوردار بارش ہوئی۔ وہاں ضرورت گاہ کا کوئی معقول انتظام نہ تھا۔ مسافر جنگل میں مختلف سمتوں میں نکل گئے تھے۔ ہم نے روڈ پار کر کے ایک گھنا درخت تلاش کیا جس کے نیچے بیٹھ کر فارغ ہوا جاسکتا تھا۔ بارش اتنی زور دار تھی کہ پانی درخت سے چھن کر نیچے آرہا تھا۔ ہم نے جوتے کی نوک سے کیچڑ میں ایک گڑھا کھودا اور فارغ ہونے کے بعد جوتے سے کیچڑ سرکا کر گڑھے کو بھر دیا۔ اس وقت تک ہم خوب بھیگ چکے تھے۔
ہم دوپہر کے کسی وقت جنگ ھانگ پہنچے۔ جنگ ھانگ ایک چھوٹا قصبہ تھا۔ بس ایک دریا پار کر کے قصبے میں داخل ہوئی اور ہمارے ہوٹل کے سامنے سے گزرتی ہوئی، بس اسٹینڈ پہ پہنچ کر رک گئی۔ ہم  قصبے کی اس واحد سڑک پہ چلتے ہوئے واپس ہوٹل تک آئے۔
جنگ ھانگ میں برما سے تعلق رکھنے والے بہت سے لوگ نظر آئے۔ ان میں سے کئی دیسی شکلوں کے تھے۔ یہ لوگ تہ بند باندھے ہوئے تھے۔ جب ہم لوگ ہوٹل میں داخل ہوئے تو اسی حلیے کا ایک شخس ہمارے ساتھ آکر استقبالیہ پہ کھڑا ہوگیا۔ جب ہم کلرک سے انگریزی میں اپنی بات کرچکے تو وہ شخص اردو میں ہم سے مخاطب ہوا۔
آپ ہم سے کہیے۔ کیا چاہتے ہیں؟ ہم ان کی بھاشا بھی جانتے ہیں۔
نہ جانے کیوں ہم اس شخص سے بات نہیں کرنا چاہتے تھے اس لیے ہم نے کلرک سے بات جاری رکھی۔ کلرک نے کمرے کے جو نرخ بتائے وہ ہماری توقع سے زیادہ تھے۔ ہم نے اپنا سامان استقبالیہ پہ چھوڑا اور کم نرخ کے ہوٹل کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔

ہم ایک ایسے بازار سے گزرے جہاں زیادہ تر دکاندار ہماری شکل کے تھے۔ وہ سب مسکرا مسکرا کر ہماری طرف دیکھ رہے تھے۔ ہم نے دوسرے ہوٹلوں سے کرائے معلوم کیے۔  ان سب کے نرخ پچھلے ہوٹل سے بھی زیادہ تھے۔ ہم واپس پہلے والے ہوٹل میں پلٹ آئے۔
اس روز ہمارے لیے سب سے اہم سوال یہ تھا کہ آیا چین لائوس کا زمینی بارڈر ہمارے جیسے پاکستانی پاسپورٹ حامل افراد کے لیے کھلا تھا؟ کیا ہم اس سرحد سے لائوس میں داخل ہوسکتے تھے؟ ہم نے یہ سوال جنگ ھانگ میں ایک سرکاری دفتر میں پوچھا تو اثبات میں جواب ملا۔ مگر پھر ہوٹل والے سے یہی سوال پوچھا تو سخت نفی میں جواب ملا۔ مگر اب دیر ہوچکی تھی۔ ہمیں اگلے روز ہر حالت میں لائوس کی سرحد پہ پہنچنا تھا۔ اگر ہمیں وہاں سے لوٹایا گیا تو برا ہوگا۔



Labels: , , ,


This page is powered by Blogger. Isn't yours?