Monday, October 31, 2016

 

زبان یار من چینی









ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار تین سو تین

 اکتوبر پندرہ، دو ہزار سولہ


زبان یار من چینی


چین میں مغرب سے مشرق کی طرف سفر کرتے ہوئے ہم بتدریج ہان لوگوں کے گڑھ کی طرف بڑھ رہے تھے۔ یعنی دنیا کی اس واحد ثقافت کے مرکز کی طرف جو تسلسل سے پچھلے لگ بھگ ساڑھے تین ہزار سال سے قائم ہے۔ تسلسل سے کس طرح؟ اس طرح کہ موجودہ چین کا ایک شخص تھوڑی سی کوشش سے پتھر پہ لکھی جانے والے ساڑھے تین ہزار سال قدیم چینی لکھائی پڑھ سکتا ہے۔ یوں تو ہم جنوبی ایشیا میں رہنے والے لوگ بھی اپنا قدیمی تعلق موئنجودڑو اور ہڑپہ کے ساتھ جوڑتے ہیں اور اس طریقے سے اپنی ثقافت کو ساڑھے چار ہزار سال پرانا خیال کرتے ہیں مگر جنوبی ایشیا کی ثقافت میں تسلسل نہیں ہے۔ ہم موئنجودڑو کی لکھائی نہیں پڑھ سکتے اور اسی وجہ سے ہم موئنجودڑو کے رہنے والوں کے بارے میں بہت زیادہ نہیں جانتے؛ نہ یہ جانتے ہیں کہ وہ کہاں سے آئے تھے اور نہ یہ جانتے ہیں کہ وہ موئنجودڑو چھوڑ کر کہاں چلے گئے۔

بہت جگہ دیکھا گیا ہے کہ کسی خطے کے لوگ اپنے خطے کو کسی نام سے جانتے ہیں، جب کہ باہر والے اس خطے کو کسی اور نام سے پکارتے ہیں۔ چین پہ بھی یہ کلیہ صادق آتا ہے۔ ہمارے لیے جو ملک چین ہے وہ چینیوں کے لیے جنگ ھوا یا درمیانی بادشاہت ہے۔ یعنی اوپر اللہ، نیچے حشرات الارض اور درمیان میں چینی بادشاہت کے روپ میں انسان کی عظیم ترین شکل۔

 لیویوآن سے لانجھو آتے آتے آبادی کا منظر بدل رہا تھا۔  قصبے اور شہر زیادہ گنجان آباد نظر آتے تھے۔ طویل القامت عمارتوں کی تعداد بھی بڑھ رہی تھی۔ ساتھ ہی ہمیں یہ احساس تھا کہ چینیوں کے ہاتھوں لٹنے میں کمی کے لیےچینی زبان سے تھوڑی بہت شد بد ضروری تھی۔

چینی بولی سیکھنا ہرگز مشکل نہیں ہے مگر  چینی زبان لکھنا پڑھنا سیکھنا بہت مشکل ہے اور اس کی وجہ چینی زبان کا انداز تحریر ہے۔ اردو تحریر کی اکائی حرف ہے اور یہی حال انگریزی سیمت اکثر زبانوں کا ہے۔ ان زبانوں میں ہم حروف یا الفابیٹ کو جوڑ کر ہجا یا سلیبل بناتے ہیں۔ ہجا حروف کا وہ مجموعہ ہے جو ایک سانس میں ادا کیا جاتا ہے۔ مثلا لفظ تمھارا میں تین ہجا ہیں، تم، ہا اور را۔ جب کہ لفظ ہوٹل میں دو ہجا ہیں، ہو اور ٹل۔ چینی زبان میں تحریر کی اکائی حروف نہیں بلکہ ہجا ہیں۔ ایسا کرنے میں آسانی یہ ہے کہ آپ چیزوں کے نام کم جگہ میں لکھ سکتے ہیں۔ مثلا ہم لفظ ہوٹل کو چار حروف ملا کر لکھتے ہیں جب کہ چینی لفظ ہوٹل لکھنے میں صرف دو ہجا یا دو چینی حروف میں کام چلائیں گے، ایک ہو کے لیے اور دوسرا ٹل کے لیے۔ مگر اس کے ساتھ اس انداز تحریر میں مشکل یہ ہے کہ چینی زبان لکھنے کے لیے آپ کو بہت بڑی تعداد میں ہجا یاد کرنے ہوں گے۔ مثلا ہم حروف الف اور ن سے چار ہجا اُن، ان، ان، اور نا بنا سکتے ہیں جب کہ چینی تحریر کے لیے آپ کو ان چاروں تراکیب کے لیے الگ الگ ہجا یا چینی حروف یاد کرنا ہوں گے۔

کسی چینی جملے میں جتنے ہجا ہوں گے، آپ کو اس میں اتنے ہی چینی حروف یا کراچی کی بازاری زبان میں چینی کیڑے مکوڑے نظر آئیں گے۔ مثلا اگر آپ ایک ایسے ہوٹل میں ٹہرے ہیں جس کا نام با یی ین گوان ہے تو آپ کو اس کے چینی نام میں چار کیڑے مکوڑے بنے نظر آئیں گے۔

کسی نئی زبان کو سیکھنے کی آزمودہ ترکیب یہ ہے کہ آپ بلا تکلف اس زبان میں کود پڑیں۔ اہل زبان جس طرح اور جس تلفظ سے الفاظ ادا کررہے ہیں آپ بھی اسی طرح ان الفاظ کو کہیں۔ مگر ہم جن زبانوں سے کسی حد تک واقف تھے، چینی زبان ان سے اس قدر مختلف ہےکہ ہمیں چینی زبان کو پکڑنے کا سرا نہیں مل رہا تھا۔ ہماری سفری کتاب میں چند بنیادی چینی جملے مع تلفظ کے اشاروں کے موجود تھے مگر ہم نے جب کبھی اس تلفظ کی مدد سے کوئی لفظ اپنے تئیں چینی زبان میں کہا تو دوسرے کو ذرا پلے نہ پڑا۔ اس صورت میں ٹرین میں ہمارے ساتھ لانجھو سے ہوہوہات جانے والی ایک چینی لڑکی ہمارے بہت کام آئی۔ اس نے ہمیں بنیادی چینی الفاظ کے صحیح تلفظ سکھانے کے علاوہ گنتی بھی سکھائی۔ اب ہم چینی زبان میں چیزوں کی مول تول کے لیے تیار ہو رہے تھے۔

Labels: , , ,


Sunday, October 23, 2016

 

جنوبی ایشیا میں علیحدگی پسند تحریکیں


یہ کہنا مناسب نہیں ہے کہ پاکستان اسلام کے نام پہ بنا تھا۔ سنہ سینتالیس میں بننے والا پاکستان جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کی جدا شناخت کے نام پہ بنا تھا۔ سنہ سینتالیس میں بننے والا پاکستان سنہ اکہتر میں ختم ہوگیا۔ اس وقت یہ بات ثابت ہوگئی کہ ایک ملک کے قائم رہنے کے لیے صرف اتنا کافی نہیں ہے کہ وہاں کا مذہبی اکثریتی گروہ خطے کے دوسرے بڑے گروہ سے جدا شناخت رکھتا ہو؛ کہ معاشرے میں عدل ضروری ہے اور یہ ضروری ہے کہ ہر شخص کو اطمینان ہو کہ ریاست کے معاملات میں اس کی مرضی کا دخل ہے۔
سنہ اکہتر کے بعد بچ جانے والا پاکستان ایک الگ طرح کی ریاست ہے۔ اس ریاست میں موجود جغرافیائی خطے کے لوگ صرف اور صرف رضاکارانہ طور پہ اس ریاست کا حصہ ہیں۔ یعنی یہ بالکل اسی نوعیت کا ملک ہے جس طرح کا ملک سنہ سینتالیس میں بننے والا بھارت تھا۔
اور اگر موجودہ ریاست میں [پاکستان یا بھارت میں] موجود کسی جغرافیائی خطے کے لوگ اس ریاست کا حصہ نہ رہنا چاہیں تو؟ تو ہونا تو وہی چاہیے جو مہذب دنیا میں ہوتا ہے؛ جو یوکے میں ہوا [اسکاٹ لینڈ کا ریفرنڈم] یا جیسا کینیڈا میں ہوا [کیوبیک کر ریفرینڈم]۔ مگر پورے جنوبی ایشیا میں ایسا ہوتا نظر نہیں آتا۔ یہاں علیحدگی کا نعرہ خون میں نہلانے کے بعد ہی قبول کیا جاتا ہے۔ [یا بعض اوقات خون میں نہلانے کے بعد رد کردیا جاتا ہے، جیسا کہ خالصتان کے سلسلے میں ہوا۔] ایسی صورت میں علیحدگی پسندوں کو یہی مشورہ دیا جاسکتا ہے کہ وہ خاموشی سے اپنا کام کرتے رہیں۔ اپنے لوگوں کی معاشی بہتری کے لیے کام کریں اور اپنا پیغام معاشرے میں عام کرتے رہیں۔ اگر وہ ایسا کرتے رہے تو اس بات کا عین امکان ہے کہ وہ اپنے علاقے کو بقیہ ملک سے اس قدر مختلف بنا دیں گے کہ ان کے علیحدگی کے نعرے کو زبردست اخلاقی برتری حاصل ہوگی اور اس وقت ترقی یافتہ دنیا ان کے علاقے کو بقیہ کوڑے سے علیحدہ کرنے میں ان کی مدد کرے گی۔

Labels:


Monday, October 17, 2016

 

سید رفعت محمود کی یاد میں

سید رفعت محمود کی یاد میں


رفعت محمود صاحب کو میں ایک ایسے نفیس شخص کے طور پہ جانتا ہوں جو مجھ سے جب ملے نہایت شفقت سے ملے۔

تین اگست کے دن سید رفعت محمود صاحب کی موت نے مجھے بہت کچھ سوچنے پہ مجبور کیا۔ میں نے ان کی موت میں اپنی زندگی کا مقصد تلاش کرنے کی کوشش کی۔
بہت سال پہلے میں ایک دوسرا انسان تھا۔ وہ شخص جو اپنے محبت کرنے والوں کی موت پہ ہفتوں دل گرفتہ رہتا۔ مگر پھر ایک دن مجھے خیال ہوا کہ قریب کے گزرجانے والوں کی موت کا گہرا سوگ دراصل وہ لوگ مناتے ہیں جنہوں نے خود اپنی عنقریب آنے والی موت کو ذہنی طور پہ قبول نہیں کیا ہوتا۔ جو اس بات کو نہیں سمجھتے کہ انسان کو ہر دن جو مل رہا ہے بس ایک تحفہ ہے جس پہ اس کا کوئی حق نہ تھا، جو محض ایک احسان ہے۔ کہ بظاہر کائنات کی ہلچل دائمی ہے۔ کہ سورج چڑھتا ہے اور سورج غروب ہوتا ہے، دن اور رات مستقل آنکھ مچولی کھیلتے ہیں، اور اسی گرتی اٹھتی موسیقی کی لو میں دل بھی دھڑکتا ہے اور سانس بھی چلتی ہے۔ مگر یہ سب عارضی ہے۔ موت زندگی کے چلتے پہیے میں ایک چھڑی ہے جس سے زندگی کا پہیہ ایک دم کڑکڑا کر رک جاتا ہے۔

سید رفعت محمود شاید زندگی کی اس حقیقت کو دوسروں سے زیادہ گہرائی سے سمجھتے تھے۔

یہاں موجود بہت سے لوگوں کی طرح رفعت محمود صاحب بھی اس ملک میں ہجرت کر کے آئے تھے۔  تیسری دنیا سے مغربی دنیا کا رخ کرنے والے لوگ ڈرتے ڈرتے اس نظام کا معاشی حصہ بننے پہ ہی فخر کرتے ہیں۔ وہ گرین کارڈ، شہریت، اور نوکری کے روگ ہی سے کبھی آگے نہیں بڑھ پاتے۔ ایسے میں رفعت محمود صاحب نے ہمیں راستہ دکھایا کہ ہم روزانہ کی جس سماجی اور معاشی زندگی سے نبردآزما ہیں وہ دراصل ایک بڑے سیاسی نظام کی مرہون منت ہے۔ اور ہمیں اس سیاسی نظام میں اپنی رائے دینی ہے۔ اس سیاسی نظام کو اپنی مرضی سے چلانے کی کوشش کرنی ہے۔

رفعت محمود صاحب امریکہ میں جس اقلیتی گروہ کا حصہ تھے اس کے اکثر لوگ اپنی خواہشات کے پنجرے میں بند نظر آتے ہیں۔ ان پنجروں میں معاشی مصروفیت کے وہ چرخے ہیں جن پہ، یہ مقید لوگ دن رات دوڑتے رہتے ہیں اور خواہشات کی اسیری سے وفاداری پہ انہیں مستقل انعامات سے نوازا جاتا ہے: بڑا گھر، چمکدار گاڑی، اور ایک ایسی کل کی مالی تیاری میں دھن کے انبار جس کل کی کوئی خبر نہیں۔

ایسے میں ہر وہ شخص جو اپنی ذات سے بلند ہوکر دوسروں کی پرواہ کرے، کمزوروں کے حقوق کے لیے آواز اٹھائے، لوگوں کو اکھٹا کرے، پورے معاشرے کی بات کرے، وہ ایک عظیم آدمی ہے۔

رفعت محمود صاحب ایک ایسے ہی عظیم انسان تھے۔


Syed Rifat Mahmood

یہ مضمون اگست اٹھائیس کو چاندنی ریستوراں، نو ارک، کیلی فورنیا میں سید رفعت محمود صاحب کی یاد میں منعقد ہونے والی ایک محفل میں پڑھا گیا۔ ’

Labels: , ,


Thursday, October 13, 2016

 

اونچ نیچ سے پاک اشتراکی معاشرہ



ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار تین سو دو

 اکتوبر نو، دو ہزار سولہ


اونچ نیچ سے پاک اشتراکی معاشرہ


ستمبر آٹھ کی میری ڈائری میں جو کچھ لکھا ہے اس سے میری اس وقت کی پریشانی کا اندازہ ہوتا ہے۔ لکھا ہے کہ خدایا میں کیا کروں؟ کاش کوئی میرے لیے یہ فیصلے کردیتا اور میں آنکھ بند کر کے پیچھے چل پڑتا۔ دراصل میری پریشانی ٹرین کے ٹکٹ کی خریداری سے متعلق تھی۔ پہلے تمہید۔ سرمایہ دارانہ نظام سے چلنے والے ممالک اپنے علاقوں میں چلنے والی ٹرینوں میں فرسٹ کلاس، سیکنڈ کلاس، اور تھرڈ کلاس کی تفریق کرتے ہیں مگر ظاہر ہے کہ اشتراکی نظام سے چلنے والا چین ایسی کوئی طبقاتی تفریق ظاہر نہیں کر سکتا تھا۔ طبقاتی تفریق نہ روا رکھتے ہوئے ریلوے کا نظام بھی چلانا تھا اور لوگوں سے ان کی مالی اسطاعت کے حساب سے رقم  بھی وصول کرنی تھی۔ چنانچہ فرسٹ کلاس، سیکنڈ کلاس، وغیرہ کی جگہ چینی ٹرینوں میں درجہ بندی نشستوں کی ساخت کے حساب سے تھی۔ سخت نشست، نرم نشست، سخت بستر اور نرم بستر۔ ہماری مالی حیثیت تو سخت نشست یا سرمایہ کاری نظام کی اصطلاح میں تھرڈ کلاس والی تھی مگر فاصلے زیادہ تھے اس لیے خواہش تھی کہ کسی طرح کم قیمت میں سخت بستر مل جائے تو لکڑی کے بستر پہ کپڑے بچھا کراسے خود ہی نرم بستر بنا لیں گے۔ سخت بستر کے ٹکٹ کی قیمت معلوم کی تو ہوش ٹھکانے آگئے۔ بہت دیر شش و پنج میں رہنے کے بعد اپنے آپ کو سمجھایا کہ آخر چینی ٹرین کی سخت نشست استعمال کرکے دیکھنے میں کیا حرج ہے۔ چنانچہ تلفان سے لیویوآن اور پھر لیویوآن سے دھن ہوانگ کے ٹکٹ سخت نشست والے خرید لیے۔ تلفان سے لیویوآن کا چند گھنٹوں کا سفر تو سخت نشست پہ کسی نہ کسی طرح گزار دیا مگر لیویوآن سے دھن ہوانگ کے پوری رات کے سفر نے ہمیں سخت نشست سے متنفر کردیا۔ کرایہ ہوش ربا اور آرام ندارد۔  سخت نشست کی لکڑی کچھ ایسی تھی کہ نشست کو آرام دہ بنانے کی ہماری ہر کوشش ناکام رہی۔ اس سفر میں ہم ایسے لوگوں کے درمیان تھے جن سے کوئی بات چیت ممکن نہ تھی؛ نہ وہ ہماری سمجھتے تھے اور نہ ہم ان کی۔ زیادہ تر مسافر بد حال تھے۔ انہوں نے اپنا سامان رسیوں سے باندھا ہوا تھا۔ ٹرین کا وہ ڈبہ جیل خانہ معلوم دیتا تھا۔ بنیانوں میں ملبوس کمزور جسمانی ساخت کے مرد چوبی نشستوں کے درمیان سے آڑھے ترچھے جھانکتے نظر آتے اور اتحادیوں کے جرمنی فتح کرنے پہ کسی جبری کیمپ کے مفلوک الحال قیدیوں کی تصویر پیش کرتے تھے۔ ڈبے کے سارے مسافر بے چینی سے گرم پانی کا انتظار کرتے جو ہر چند گھنٹے میں ریلوے کی طرف سے مفت تقسیم کیا جاتا تھا۔
اسی سفر میں ہماری بات چیت ایک جاپانی لڑکی سے ہوگئی۔  ہم جاپانی اور چینی شکلوں کے درمیان فرق کرنے میں مہارت نہیں رکھتے مگر اس لڑکی کے نفیس کپڑوں کی وجہ سے پہچان گئے کہ وہ مقامی نہیں تھی بلکہ سیاح تھی۔ جاپانی سیاح لڑکی نے صلح دی کہ کسی طرح ٹکٹ کلٹر سے بات کر کے معلوم کریں کہ آیا اس ٹرین میں سیاحوں کے لیے کوئی آسانی تھی جس کا فائدہ اٹھایا جاسکتا تھا۔ کچھ وقت ٹکٹ کلکٹر کو ڈھونڈنے میں اور کچھ وقت اس کو اپنی بات سمجھانے میں لگا مگر اس تگ و دو کا کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکلا اور ہم واپس اپنی سخت نشست پہ پلٹ آئے۔ بیس گھنٹے کے اس تکلیف دہ سفر کے بعد جب ہم دھن ہوانگ پہنچے اور وہاں ہمیں تاریخی موگوائو بدھ غار دیکھنے کے لیے اسی یوآن داخلہ ٹکٹ خریدنا پڑا تو ہماری چیخ نکل گئی۔ چین سیاحوں کو لوٹنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہا تھا۔
دھن ہوانگ کے سفر سے پہلے، لیو یوآن میں ہم ریلوے اسٹیشن کی انتظارگاہ ہی میں سو گئے تھے۔ وہیں ہم بہت دیر تک ایک اسرائیلی جوڑے کو ایک انگلستانی عورت سے باتیں کرتے دیکھتے رہے اور آخر میں ہماری بات چیت بھی ان تینوں سے ہوگئی۔ اسرائیلی جوڑا کافی عرصے سے چین میں سفر کررہا تھا۔ ہم کیونکہ پاکستان سے چین پہنچے تھے اس لیے ایک واضح مشاہدے کی طرف ہمارا دھیان نہیں گیا تھا۔ اس طرف اسرائیلی مرد نے ہمیں توجہ دلائی۔ وہ بات چینیوں کی نظم و ضبط سے متعلق تھی۔ مائو اور بعد میں آنے والے چینی قائدین نے عام خواندگی اور صحت عامہ کی طرف تو توجہ کی تھی مگر عوام کو تمیز سکھانے کی طرف دھیان نہیں دیا تھا۔ اس غفلت کی وجہ سے اب تک چینیوں کو قطار بنانے کا سلیقہ نہیں آیا تھا۔ ٹرین اسٹیشن پہ پہنچتی تو چینی ہجوم کی صورت میں گاڑی کے مختلف دروازوں کی طرف لپکتے اور گاڑی میں داخل ہونے کی کوشش میں خوب دھینگا مشتی ہوتی۔ نظم و ضبط رکھنا، سلیقے سے بات کرنا، صاف ستھرے رہنا اور اپنے آس پاس صفائی کا خیال رکھنا، عام خواندگی سے اگلی منزل ہے جس کی طرف چینی قیادت کا دھیان نہیں گیا تھا۔ بہت سالوں بعد جب بے جنگ میں اولمپکس ہوئے تو چینیوں کو مختلف پیمفلٹ کے ذریعے بتایا گیا کہ انہیں غیرملکیوں کے سامنے کیسے اچھا برتائو کرنا تھا۔ ان سلیقے کی باتوں میں مردوں کے لیے ایک خاص تاکید یہ تھی کہ وہ پیشاب گاہ استعمال کرنے کے بعد اچھی طرح اطمینان کرلیں کہ ان کی پتلون کی زپ بند ہے۔

Labels: , ,


Sunday, October 09, 2016

 

تلفان





ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار تین سو ایک

 اکتوبر تین، دو ہزار سولہ


تلفان


گرم پانی
گو کہ ہمیں کورلا میں ہوٹل کا کمرہ بہت صبح چھوڑنے کو کہا گیا تھا مگر ہماری آنکھ  تڑکے اس وقت کھلی جب اچانک کوئی دروازہ کھول کر کمرے کے اندر داخل ہوا۔  ہم نے بستر پہ ساکت پڑے اس نسوانی ہیولے کو دیکھا جو بستر کے دوسری طرف پڑی میز پہ نیا تھرموس رکھ کر اور پرانا تھرموس لے کر چلتا بنا تھا۔
چین پہنچنے سے پہلے کسی نے ہمیں یہ نہیں بتایا تھا کہ چینی ٹھنڈا پانی نہیں پیتے بلکہ کھولتا ہوا گرم پانی پیتے ہیں۔  مگر چین پہنچتے ہی ہم پہ یہ راز کھل گیا تھا کیونکہ ہر ہوٹل کے کمرے میں گرم پانی کا تھرموس موجود ہوتا تھا۔ کورلا کے اس ہوٹل کی سروس ذرا نرالی تھی۔ شاید ہوٹل والوں کو خیال ہوا کہ ہمیں صبح اٹھتے ہی گرم پانی پینے کی چاہت ہوگی، اس لیے بغیر دروازہ کھٹکھٹائے چابی سے کمرے کا دروازہ کھولا گیا اور پانی کا نیا تھرموس پرانے تھرموس سے بدل دیا گیا۔ اس واقعے کے بعد ہم نے یہ انتظام کیا کہ رات کمرے کا روازہ مقفل کرنے کے بعد دروازے کے آگے ایک کرسی یا کوئی اور بھاری چیز رکھ دیتے تھے۔
اگر آپ کسی چینی سے پوچھیں کہ وہ گرم پانی کیوں پیتا ہے تو وہ آپ کے اس سوال پہ حیران ہوگا۔ اس کا خیال ہوگا کہ پانی تو ہمیشہ گرم ہی پیا جاتا ہے۔ بھلا ٹھنڈا پانی کون پیتا ہے؟ ٹھنڈا پانی تو جسم کے لیے نقصان دہ ہے۔ جب کہ گرم پانی جلد آپ کے گرم نظٓم ہاضمہ کا حصہ بن جاتا ہے۔ چینی اتنے عرصے سے گرم پانی پی رہے ہیں کہ انہیں معلوم نہیں کہ انہوں نے کتنی دہائیوں پہلے ایسا کرنا شروع کیا تھا۔
کہتے ہیں کہ کنفیوشس نے گرم پانی پینے کا رواج عام کیا تھا۔ پھر مائو کے انقلاب کے بعد صحت عامہ برقرار رکھنے کی نیت سے ریاستی سطح پہ گرم پانی پینے کی عادت کو فروغ دیا گیا۔
پرانے وقتوں میں سفر جان جوکھوں کا کام تھا۔ ہر قدم پہ خطرات تھے۔ سب سے بڑا خطرہ یہ تھا کہ آپ جس نئی جگہ جائیں گے وہاں کوئی آپ کو زہر دے کر ہلاک کردے گا اور آپ کا سامان ہتھیا لے گا۔ ہمارا خیال ہے کہ پرانے زمانے کے ایسے واقعات میں زہر دراصل نئی جگہ کا پانی ہوتا ہوگا۔ نئی جگہ کا پانی، طرح طرح کے نئے جراثیم لیے؛ ایسے جراثیم جن سے مدافعت کی طاقت آپ کے بدن میں موجود نہیں ہے۔ آپ وہ پانی پئیں تو ذرا سی دیر میں بیمار ہوجائیں۔  آج کا مسافر تو اچھی طرح یہ بات جانتا ہے کہ کسی نئی جگہ پہنچ کر سب سے زیادہ احتیاط پینے کی پانی مٰیں کرنی ہے مگر چند دہائیوں پہلے یہ علم عام نہ تھا۔ پرانے زمانے کے تجربہ کار سیاحوں کو جہاں سورج اور ستاروں کی مدد سے سمت کا تعین کرنے کا طریقہ معلوم تھا وہیں شاید انہیں یہ راز بھی معلوم ہوگا کہ نئی جگہ پہ کھانا ہمیشہ گرما گرم کھانا ہے؛ پانی گرم پینا ہے یا پھر پینا ہی نہیں ہے۔ پانی کی کمی ایسے رس دار پھلوں سے پوری کرنی ہے جنہیں چھیل کر کھایا جاسکے۔
ہیولے کے کمرے سے جانے کے بعد ہم بہت دیر تک بستر پہ پڑے رہے۔ پھر جب کھڑکی کے باہر دن کی روشنی بڑھی تو اٹھ کر گرم پانی کو تھرموس سے نکال کر گلاس میں ڈالا کہ پانی ٹھنڈا ہوجائے تو اسے پئیں۔

کورلا سے تلفان
کورلا سے تلفان جانے میں ہمیں یہ خوشی تھی کہ ہم پہلی بار چین میں ٹرین کا سفر کررہے تھے۔
وہ سفر بہت زیادہ لمبا نہ تھا۔ ہم تلفان پہنچ کر بہت خوش ہوئے۔ ریلوے اسٹیشن سے نکل کر پیدل مرکز شہر کی طرف چلے تو سڑکوں اور فٹ پاتھوں کو انگوروں کی بیلوں سے ڈھکا پایا۔ تلفان اپنے انگوروں کے لیے مشہور ہے اور تلفان انگوروں کی کاشت کا کوئی موقع ہاتھ سے گنوانے کے لیے تیار نظر نہ آتا تھا۔ فٹ پاتھ پہ چلتے کئی جگہ انگوروں کے خوشے اتنے نیچے لٹکے نظر آئے کہ ہمارا سر ان سے ٹکراتے ٹکراتے بچا۔  وہ انگوروں کا موسم تھا اور انگور تیار حالت میں تھے۔ مگر انگور کی وہ بیلیں بلدیہ کی ملکیت تھیں۔ چین اشتراکی نظام پہ چل رہا تھا۔ مشترکہ ملکیت کے ان انگوروں کو ہاتھ لگانے پہ ہم پکڑے جاسکتے تھے۔
تلفان پہنچنے کے اگلے دن ہمیں ایک ضروری کام کرنا تھا۔ دراصل کراچی میں موجود چینی قونصل خانے نے ہمیں صرف دس روز کا سیاحتی ویزا دیا تھا۔  چین میں داخل ہونے کے بعد دس دن پلک جھپکتے میں گزر گئے تھے۔ ہمیں ویزے کی مدت میں توسیع درکار تھی۔ تلفان میں یہ کام آسانی سے ہوگیا۔ ایک سرکاری دفتر میں ہمارے ویزے کی مدت بڑھا دی گئی۔ مگر ہماری خواہش کے خلاف لمبی توسیع نہیں دی گئی بلکہ چین میں صرف دس اور دن ٹہرنے کی اجازت ملی۔
تلفان ایک تاریخی شہر ہے۔ تلفان آنے والے سیاح  اس جگہ سے متعلق مختلف تاریخی ادوار کی نشانیاں دیکھ سکتے ہیں۔ وہاں ماضی قریب کی ایک یادداشت حاجی امین مینار کی صورت میں تھی۔ یہ مینار اس وقت کی یادگار ہےجب ایک چینی بادشاہ نے تلفان پہ قائم منگول بادشاہت کو شکست دے کر تلفان کو اپنی بادشاہت کا حصہ بنایا تھا۔ امین خوجہ مینار ایک مسجد کے ساتھ واقع تھا۔ اگر آپ تلفان کی زیادہ قدیم تاریخ کو جاننا چاہیں تو آپ تلفان سے کچھ فاصلے پہ واقع بزکلک بدھ غاروں کی سیر کرسکتے ہیں۔ یہ غار اس دور کی نشانی ہیں جب اسلام آنے سے بہت پہلے یہ اس پورے علاقے میں بدھ مت کے پیروکار رہتے تھے۔ ہم ایک وین کے ذریعے تلفان سے بزکلک غار پہنچے تو سیاح ہونے کے ناتے ہم سے غار کی داخلہ فیس کس کر لی گئی۔ ٹکٹ کی وہ رقم مقامی باشندوں کے لیے مختص ٹکٹ کی رقم سے کئی گنا زیادہ تھی۔ ہم تلملا اٹھے۔ ہم نے احتجاج کیا کہ سب سیاح برابر نہیں ہوتے۔ ہم مغربی ممالک کے ان سیاحوں جیسے نہ تھے جو دو ہفتے کی چھٹیوں پہ کہیں جاتے ہیں اورجن کے لیے کم  وقت میں خطیر رقم خرچ کرنا کوئی بڑی بات نہیں ہوتی۔ ہم تو طالب علم سیاح تھے۔ مگر ہماری ایک نہ سنی گئی۔ ہم مقامی نہ تھے؛ ہماری جیب پہ ڈاکہ ڈالنے کے لیے بس اتنا کافی تھا۔
اسی علاقے میں ہمیں تائیوان سے تعلق رکھنے والا ایک خانوادہ ملا تھا۔ اس خاندان کے ایک نوجوان نے بتایا تھا کہ خاندان کے لوگ کوشش کرتے تھے کہ مقامی چینی بن کر ایسے سیاحتی مقامات کی کم فیس دیں مگر اکثر جگہ انہیں کامیابی نہیں ہوتی تھی۔  ان لوگوں کے جدید تراش خراش کے لباس اور چینی زبان کا جدا لہجہ گواہی دیتا تھا کہ وہ مقامی چینی نہیں تھے۔ ان سے بھی کڑک فیس اینٹھی جاتی تھی۔ 
ہم داخلہ فیس دینے کے بعد اوپر چڑھے اور ایک ایک غار میں جھانک کر وہاں کا جائزہ لیتے ہوئے سوچتے رہے کہ اس سیاحت سے ہم جو علم حاصل کر رہے تھے کیا وہ اس کڑی فیس سے وارہ کھاتا تھا جو ہم سے وصول کی گئی تھی۔
تلفان میں تین روز کے قیام کے دوران ہم نے صبح و شام انگور کھائے کہ وہ وافر دستیاب تھے اور ارزاں تھے۔ جب انگور کھانے سے دل بھر گیا تو سوچا کہ انگوروں کا رس نکال کر پیا جائے۔ اس مقصد کے لیے کئی بار اپنا رومال استعمال کیا۔ رومال کو انگوروں سے بھرا جاتا اور پھر انگوروں کو دبا کر گلاس میں رس جمع کیا جاتا۔  تلفان سے روانہ ہوتے وقت ہم اپنا وہ یادگار رومال ہوٹل کے کمرے میں بھول آئے۔

 

Labels: , ,


This page is powered by Blogger. Isn't yours?