Friday, September 23, 2016

 

تابخاک کاشغر







ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار دو سو ننانوے

 ستمبر سولہ، دو ہزار سولہ

تابخاک کاشغر


ہمیں بچپن میں امت مسلمہ کی یکجہتی کے اس خواب کے بارے میں بتایا گیا تھا جو جید شاعر محمد اقبال نے دیکھا تھا۔ اقبال کے اسی قسم کے بلند و بالا خیالات ہم تک پہنچانے کے ساتھ ہمیں بتایا گیا تھا کہ اقبال کو شاعر مشرق کہا جاتا ہے۔ ہم بہت عمر تک یہی سمجھتے رہے کہ ایران نے حافظ کو، عربوں نے ابو طیب متنبی کو، اور چین نے لی بائے کو ایک طرف رکھ کر محمد اقبال کو شاعر مشرق تسلیم کرلیا ہے۔ جب ہم اپنے کنویں سے باہر نکلے تو یہ جان کر بہت مایوسی ہوئی کہ پاکستان اور شمالی ہندوستان کے اردو بولنے اور سمجھنے والوں سے پرے کوئی محمد اقبال کو شاعر مشرق نہیں پکارتا۔ مزید غصہ اس وقت آیا جب معلوم ہوا کہ اقبال کو شاعر جنوبی ایشیا بھی نہیں کہا جاسکتا کیونکہ ہمارے خطے سے تعلق رکھنے والا ہر لسانی گروہ اپنے شاعر کو عظیم ترین شاعر سمجھتا ہے، مثلا بنگالیوں کا خیال ہے ٹیگور کے مقابلے میں اقبال نے جھک ہی ماری ہے۔
اسی طرح ہم سمجھے تھے کہ اقبال کے مسلم یکجہتی کے خیالات کو مسلم دنیا میں زبردست پذیرائی حاصل ہے۔  خیال تھا کہ نیل کے ساحل پہ جا بجا محمد اقبال کی تصاویر لگی ہوں گی؛ مگر نیل کے ساحل پہ ہمیں ایسا کوئی منظر نظر نہیں آیا۔ اور اب کاشغر میں بھی ایسی ہی مایوسی ہورہی تھی۔ یہاں بھی اقبال کو جاننے والا کوئی نہ تھا۔ معلوم ہوا کہ ہماری زبان کا بڑا شاعر جس مسلم یکجہتی، اور نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر پھیلی  وسیع مسلم سلطنت کا خواب دیکھ رہا تھا، اس خطے سے باہر رہنے والے لوگ اس خیال سے متفق تو کجا واقف ہی نہیں تھے۔ پھر اقبال کے اس شعر میں اور مسائل بھی نظر آئے۔
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر
مسئلہ یہ نظر آیا کہ اگر ہم نے نیل کے ساحل پہ ٹہلنے والوں کو اور کاشغریوں کو یہ خبر پہنچا بھی دی کہ  سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے ایک اردو شاعر نے یہ عظیم خیال پیش کیا ہے، اور اگر کسی طرح یہ سارے لوگ ایک ہو بھی جائیں تو جو لوگ پہلے ہی حرم کی پاسبانی کر رہے ہیں، اور اس پاسبانی سے کمائی کررہے ہیں، یعنی آل سعود، وہ بھلا کیوں آسانی سے حرم کی پاسبانی کی اس سونے کی چڑیا کو اپنے ہاتھ سے جانے دیں گے؟

اگر آپ زمینی سفر کرنا چاہیں تو طویل مسافت کے سفر میں بس کے مقابلے میں ٹرین کا سفر نسبتا آرام دہ ہوتا ہے۔ ہم بسوں سے سفر کرتے کرتے تھک گئے تھے اور اب ٹرین کا سفر کرنا چاہتے تھے۔ مگر چین کے اس مغربی علاقے میں پہاڑی راستوں کی وجہ سے ٹرین کاشغر سے بہت دور کورلا نامی قصبے سے ملتی تھی۔ اور کاشغر سے کورلا کا سفر بہت لمبا تھا۔ سفر اس لیے طویل نہ تھا کہ فاصلہ زیادہ تھا بلکہ اس لیے طویل تھا کہ بس ہلکی رفتار سے چلتی تھی اور راستے میں پڑنے والے مختلف قصبوں میں رکتی تھی۔ کاشغر سے کورلا کے سفر میں ہمیں آٹھ گھنٹے کی بس کی مسافت سے آخسو نامی قصبے جانا تھا۔ اس قصبے میں رات گزارنے کے بعد ایک دوسری بس سے پورے دن کا سفر کر کے کورلا پہنچنا تھا۔ [واضح رہے کہ ہمارے سفر کے پانچ سال بعد سنہ ننانوے میں چینیوں نے کاشغر تک ریلوے لائن پہنچا دی اور کاشغر پہ چین کی گرفت اور مضبوط ہوگئی۔]
اب ہم ان راستوں سے گزر رہے تھے جہاں سیاح دور دور نظر نہ آتے تھے۔ بس کے مقامی مسافروں کے درمیان ہم بالکل اجنبی تھے۔ پھر ہماری ایک اور انفرادیت یہ تھی کہ دوسرے مسافروں کے مقابلے میں ہماری گود میں کوئی پالتو جانور نہیں تھا۔ دوسرے مسافر اپنی مرغیوں، دنبوں، اور بکروں کے ساتھ سفر کررہے تھے۔
ہم آخسو شام کے وقت پہنچے۔ وہاں سڑکوں پہ موجود پانی ظاہر کررہا تھا کہ بارش کچھ دیر پہلے تھمی تھی۔ آخسو میں ہمیں چند کمروں پہ مشتمل اس چھوٹے سے ہوٹل میں ٹہرنا تھا جو بس اڈے کے ساتھ تھا۔ وہاں کمروں کے ساتھ متصل غسلخانے نہیں تھے۔ ہوٹل میں ایک مرکزی بیت الخلا تھا جو نہایت نامعقول تھا۔  اس مرکزی بیت الخلا کے وسط میں ایک دیوار سے دوسری دیوار تک ایک چوڑی نالی تھی۔ اسی نالی پہ بیٹھ کر آپ کو فارغ ہونا تھا۔ صبح کے وقت بعد جب نالی آگے سے پیچھے تک بھر جاتی تو پانی کا ایک ریلا آتا اور نالی سے سب کچھ بہا کر لے جاتا۔ وہ کون شخص ہے جو یہ فیصلہ کرتا ہے کہ اب نالی بہت بھر گئی ہے اور وہاں پانی چلانا چاہیے، اس بارے میں ہمیں کوئی خبر نہیں تھی۔ ہم نے تو بس اتنا ارادہ کیا کہ علی الصبح اٹھ کر بیت الخلا استعمال کریں گے تاکہ ہم نالی استعمال کرنے والے پہلے شخص ہوں۔





Labels: , , ,


Thursday, September 15, 2016

 

کاشغر




ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار دو سو اٹھانوے

 ستمبر گیارہ، دو ہزار سولہ

کاشغر


بلخ، بخارا، اور سمرقند کی طرح کاشغر بھی ایک ایسا نام ہے جو تاریخ کے دھندلکوں میں ایک گم گشتہ عظمت کا نشان معلوم دیتا ہے۔ ہم تاشقرغان سے جس بس میں سوار ہوئے اس نے آٹھ گھنٹے بعد ہمیں کاشغر کے تاریخی شہر پہنچا دیا۔ کاشی یا کاشغر میں جدید اور قدیم کے دوران وہی تگ و دو جاری تھی جو دنیا کے دوسرے تاریخی شہروں میں نظر آتی ہے۔ کاشغر کے پرانے علاقے لاہور سمیت برصغیر کے دوسرے تاریخی شہروں کے پرانے علاقوں جیسے تھے، تنگ بل کھاتی گلیاں اور سرخ اینٹوں کے گھر۔
تاریخی طور پہ کاشغر کی اہمیت ریشم راستوں کی وجہ سے تھی۔ شاہراہ ریشم کے بجائے ریشم راستے زیادہ مناسب اصطلاح ہے کیونکہ چین سے نکلنے والی ریشم قدیم دنیا کے کئی متمول علاقوں میں مختلف راستوں سےجاتی تھی۔ کاشغر کے ایک طرف چین تھا تو دوسری طرف افغانستان اور ترک سلطنتیں۔ قریب کی بڑی سلطنت طاقتور ہوتی تو وہ کاشغر کو اپنے قبضے میں کرلیتی۔ بڑی سلطنت کمزور پڑتی تو کاشغر آزاد ہو کر کسی مقامی رئیس کے زیر اثر آجاتا۔
واضح رہے کہ ممالک کی نپی تلی سرحدیں ہونا ایک نسبتا نیا معاملہ ہے۔ اس طرح کی واضح سراحد کا تعلق جدید سروے انگ آلات سے ہے۔ ان آلات میں تھیوڈولائٹ خاص آلہ ہے۔ یہ آلات رفتہ رفتہ رائج ہوئے ہیں اور ان سے ناپی جانے والی سرحدیں کاغذ کے نقشوں پہ رفتہ رفتہ پختہ سے پختہ ہوتی گئیں۔ مثلا انیس سو باسٹھ کی ہند چینی جنگ کو ہی لے لیجیے۔ اگر سروے انگ کے آلات اس قدر اچھے نہ ہوتے اور سراحد اس طرح وضاحت سے نہ ناپی جاتیں تو شاید ہندوستان اور چین کے درمیان سنہ باسٹھ کی وہ جنگ بھی نہ ہوتی۔
جنوب سے چین میں داخل ہونے پہ کاشغر اور اس سے آگے آپ کو صحیح معنوں میں ہان چینی نسل کے لوگ نظر آنا شروع ہوتے ہیں؛ یہ وہ لوگ جنہیں بیرونی دنیا حقیقی معنوں میں چینی سمجھتی ہے۔ ہان اس علاقے میں جدیدیت کے علمبردار ہیں۔ ہم کاشغر کے جس ہوٹل میں ٹہرے وہاں ہمیں چین میں داخلے کے بعد پہلی بار کارڈ چابی والے دروازے ملے۔

پاکستان سے چین پہنچنے پہ ہم محفوظ محسوس کررہے تھے اور اس طرح چین ایک مہذب ملک نظر آتا تھا۔ ریاست کا اولین فرض ہر شہری کے جان و مال کی حفاظت کرنا ہے۔ جو ریاست اس فرض میں جس قدر ناکام ہے وہ ریاست دراصل خود ایک ناکام ریاست ہے اور اپنی بقا کا حق کھو بیٹھی ہے۔ چین میں مائو کے انقلاب کے بعد تعلیم اور صحت عامہ کی طرف خاص توجہ دی گئی اور اس لحاظ سے بھی چین ایک مہذب ملک نظر آتا تھا۔ مگر چین تہذیب کے ایک اور پیمانے پہ پورا نہیں اترتا تھا۔ چین میں نلوں سے آنے والا پانی پینے کے قابل نہ تھا۔ ہمیں پینے کا پانی بوتلوں میں خریدنا پڑتا تھا۔
پھر ایک اور مسئلہ یہ تھا کہ چین میں دودھ اس شکل میں دستیاب نہ تھا کہ ہم اسے اپنے ساتھ رکھ سکیں اور جب چاہیں استعمال کریں۔ ہم نے حل یہ نکالا کہ دہی خریدتے تھے اور اسے مائع شکل میں پی کر دودھ کی کمی پوری کرتے تھے۔
کاشی میں ہوائی اڈہ ہونے کی وجہ سے یہاں مغربی سیاح بڑی تعداد میں نظر آرہے تھے۔ اگر یہاں ہوائی اڈہ نہ ہوتا اور بے جنگ سے براہ راست پروازیں کاشغر نہ آرہی ہوتیں تو شاید بہت سے سیاح زمینی راستے سے کاشغر تک سفر کو مشکل جان کر یہاں کا رخ نہ کرتے۔
کاشغر پہنچنے تک ہم چین میں بغیر کسی سفری کتاب کے سفر کررہے تھے۔ اس وقت تک انٹرنیٹ مقبول نہیں ہوا تھا اس لیے سفری معلومات حاصل کرنا آسان نہ تھا۔ ہم کاشغر میں جس ہوٹل میں ٹہرے وہاں مغربی سیاح نظر آرہے تھے۔ ہم نے ہوٹل کے نوٹس بورڈ پہ اشتہار لگا دیا کہ اگر کوئی چین کی لونلی پلانٹ نامی سفری کتاب بیچنا چاہے تو ہم سے رجوع کرے۔
نوٹس بورڈ پہ اعلان لگانے کے کچھ ہی گھنٹوں میں ہمارے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹایا گیا۔ ایک خاتون جو چین میں سفر ختم کر کے پاکستان جارہی تھیں اپنی کتاب بیچنا چاہتی تھیں۔ ہم نے جھٹ وہ کتاب ان سے خرید لی۔ پھر اس سفری کتاب کی تیزی سے ورق گردانی کی اور آگے سفر کی منازل طے کیں۔
کاشغر میں ہمارے قیام کے دوران ہر دن دھوپ نکلی۔ دن میں گرمی ہوجاتی مگر ہوا خشک ہونے کی وجہ سے پسینہ نہ بہتا تھا۔ یہ ایسی جگہ تھی جہاں بخاراتی ائیر کنڈیشنر [ایواپوریٹو کولرز] کارآمد ثابت ہوسکتے تھے۔
کاشغر میں قیام کے دوران ہم ہفتہ وار لگنے والی اس مارکیٹ میں گئے جہاں اتوار کی رات پوری سڑک کھانے پینے کے ٹھیلوں سے بھر جاتی تھی۔ جگہ جگہ سے دھواں اٹھ رہا تھا اور فضا طرح طرح کے کھانوں کی خوشبو سے بھری ہوئی تھی۔ ہم نے ندیدگی سے ایک ٹھیلے سے پراٹھے اور مچھلی لے کر کھائی۔

کاشغر میں پاکستانی اتنی تعداد میں آتے تھے کہ مقامی لوگ ہر کھڑی ناک والے غیرملکی سیاح کو پاکستانی کہہ کر پکارتے تھے۔ مغربی سیاح یقینا اس طرح پاکستان سے تعلق ملائے جانے پہ خوش نہ تھے۔
کاشغر میں قیام کے آخری روز ہمیں دیسی کھانے کی تلاش ہوئی۔ تھوڑی سی پوچھ گچھ سے ایک جگہ کے بارے میں معلوم ہوگیا۔ اس جگہ بیٹھنے کا انتظام نہیں تھا۔ آپ صرف کھانا لے کر وہاں سے جاسکتے تھے۔ ہم نے بھی ایسا ہی کیا۔ معلوم ہوا کہ پاکستان سے آنے والے تاجر عموما بے جنگ سمیت چین کے بڑے شہروں کا رخ کرتے ہیں مگر چند ادھر کاشغر میں بھی ٹک گئے ہیں۔


Labels: , , ,


Sunday, September 11, 2016

 

تاشقرغان





ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار دو سو ستانوے

 ستمبر چار، دو ہزار سولہ

تاشقرغان

علی حسن سمندطور

پاکستان اور چین کی باہمی سرحد پار کرنے کے بعد چین کے کافی اندر جانے پہ ایک چھوٹا قصبہ تاش قر غان نام کا آتا ہے۔ اسی قصبے میں چین کی سرحدی چیک پوسٹ ہے اور پاکستان سے چین جانے والوں کی امیگریشن  یہیں ہوتی ہے۔  اگر کبھی وخان پٹی کے سرے پہ موجود افغانسان اور چین کی باہمی سرحد عام ٹریفک کے لیے کھلی تو تاشقرغان ہی میں افغانسان آنے جانے والوں کے امیگریشن انتظامات بھی ہوں گے۔
درہ خنجراب سے تاشقرغان جاتے ہوئے ہمیں ایک سرکاری عمارت پہ  شمسی بجلی پینل [فوٹووولٹیک پینل] لگے نظرآئے۔ بیس سال پہلے اس بیاباں میں شمسی بجلی پینل کا یہ نظارہ چین کا جدید دور میں داخلے کا ایک زوردار اعلان تھا۔
اگر آج آپ مجھ سے بیس سال پرانی بات یاد کرنے کو کہیں اور پوچھیں کہ تاشقرغان کے بارے میں مجھے کیا کچھ یاد ہے تو میں جانوروں کے بال جلنے کی بو اور سڑک کے ساتھ لگے کھمبوں پہ اسپیکر یاد کروں گا۔ وہاں جانوروں کے بال جلنے کی بو اس لیے تھی کیونکہ اس چھوٹے سے گائوں میں سڑک کے ساتھ کئی جگہ انگھیٹیوں پہ دنبے کے سر اور پیر جلا کر ان کے بال صاف کیے جارہے تھے۔ سری اور پائے کا کون سا خاص کھاجا بنانے کی تیاری تھی، اس بارے میں مجھے کچھ خبر نہیں۔ اس کے ساتھ کھمبوں پہ لگے اسپیکر پہ خاص ہدایات دی جارہی تھیں۔ بہت تجسس کے باوجود یہ معلوم نہ ہوپایا کہ وہ ہدایات کس متعلق تھیں۔  
تاشقرغان پہنچ کر اندازہ ہوا کہ ہم مانوس جگہوں سے دور آگئے تھے۔ تاشقرغان بہت سے سرحدی قصبوں کی طرح ایسی جگہ تھی جو یورپ سے درآمد شدہ خیالات کے تحت ایک قوم ریاست [نیشن اسٹیٹ] کے خانے میں فٹ نہیں ہوتے۔ ایسی جگہ جو آس پاس کے رنگا رنگ مختلف مضبوط کلچر کے اثر سے بالکل منفرد ہو۔
پرانے وقتوں میں جب شہر اور چھوٹے علاقے آزاد ہوتے تھے، ایسی آزاد جگہیں وقفے وقفے سے کسی بڑی بادشاہت کا حصہ بن جاتی تھیں۔ موجودہ شنجیانگ کے قصبے بھی اسی طرح کبھی کسی مشرقی سلطنت اور کبھی کسی مغربی سلطنت کا حصہ بن جاتے۔
غنیمت تھا کہ چین نے تاشقرغان کو ایک آزاد علاقہ قرار دیا تھا۔ تاشقرغان کی تاجکستان سے قربت کی وجہ سے یہاں تاجک زبان سے ملتی جلتی سرقولی زبان بولی جاتی ہے۔

تاشغرغان بہت چھوٹا ہے مگر اس کو دیکھ کر صاف نظر آتا ہے کہ یہاں سے چین شروع ہوچکا ہے۔ چین میں داخل ہوتے ہی آپ کو جدید چینی عمارت سازی کے نمونے نظر آنا شروع ہوجاتے ہیں۔ ایسی عمارتیں جن میں سرخ اینٹوں کے اوپر اندرونی سطحوں پہ پلاسٹر کیا جاتا ہے اور بیرونی سطح پہ سفید یا پیلے ٹائلز لگائے جاتے ہیں۔ آپ کو جگہ جگہ ایسی عمارتیں نظر آئیں گی۔

چین وسیع رقبے پہ پھیلا ہوا ہے مگر وہاں صرف ایک وقت یعنی بے جنگ اسٹینڈرڈ ٹائم رائج ہے جو پاکستان کے وقت سے تین گھنٹے آگے ہے۔ چین کا صوبہ شنچیانگ اس قدر مغرب میں ہے کہ اس صوبے کا بے جنگ ٹائم پہ چلنا مضحکہ خیز معلوم دیتا ہے مگر یہ پھر بھی چینی معیاری وقت پہ چل رہا ہے۔ جب بے جنگ میں صبح کے آٹھ بجے ہوتے ہیں تو شنجیانگ فجر سے پہلے کے اندھرے میں ڈوبا ہوتا ہے مگر پھر بھی سرکاری دفاتر میں یہاں بے جنگ کے وقت کے مطابق کام شروع ہوجاتا ہے۔

تاشقرغان پہنچتے ہی ہم نے پاس موجود پاکستانی روپوں کو چینی یوان میں تبدیل کروایا۔ ہمیں قریبا چار روپے کا ایک یوان ملا۔

یکے بعد دیگرے کئی لمبے سفر کے بعد ہم تھک گئے تھے اور اسی لیے ہم نے تاشقرغان میں دو راتیں بسر کیں۔ تاشقرغان پہنچتے ہی ہوٹل خنجراب میں قیام کیا مگر اگلے دن اسی قیمت میں نسبتا بہتر ہوٹل پامیر دریافت کرنے پہ وہاں منتقل ہوگئے۔

بلندی پہ واقع ہونے کی وجہ سے تاشقرغان میں سارا دن مطلع صاف ہونے کے باوجود موسم خنک رہتا تھا۔ شام سرد ہوا چلتی تھی جو موسم کو بالکل ٹھنڈا کردیتی۔

تاشقرغان میں ہمیں کوئی مغربی سیاح نظر نہیں آیا۔ ہمارے ساتھ آنے والے بیشتر پاکستانی تاجر بھی اگلے دن وہاں سے روانہ ہوگئے تھے۔


Labels: , ,


This page is powered by Blogger. Isn't yours?