Thursday, June 30, 2016

 

سنگاتوکا میں نازیہ حسن سے ملاقات




ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار دو سو ستاسی

جون پچیس، دو ہزار سولہ

سنگاتوکا میں نازیہ حسن سے ملاقات


 
گائوں میں ایک شخص بیمار پڑا تو گائوں کے اس حکیم کے پاس گیا جو گائوں کی مسجد کا امام بھی تھا۔ حکیم مولوی نے بیمار کو پہچان لیا کہ وہ باقاعدگی سے مسجد میں نظر آتا ہے۔  حکیم نے بیمار کی نبض دیکھی، حلق دیکھا، دوسرا حال احوال سنا اور پھر بیمار سے کہا کہ تمھارے لیے ایک بری خبر ہے اور ایک اچھی، کونسی خبر پہلے سننا چاہو گے؟ بیمار نے کہا کہ پہلے اچھی خبر سنا دیں، پھر دوسری بھی سنا دیجیے گا۔ مولوی حکیم نے بیمار سے کہا کہ اچھی خبر تو یہ ہے کہ تم مرنے کے بعد جنت میں جائو گے، اور بری خبر یہ ہے کہ تم اگلے تین دن میں وہاں کے لیے روانہ ہورہے ہو۔
لطیفے انسانوں کے ڈھکے چھپے خیالات کو بیچ چوراہے میں لا کھڑا کرتے ہیں۔ اوپر تحریرکیا جانے والا لطیفہ بھی ایک خاص بھید سے پردہ اٹھاتا ہے۔ بھید یہ ہے کہ گو کہ بہت سے لوگوں کی خواہش ہے کہ مرنے کے بعد وہ جنت میں جائیں مگر انہیں وہاں جانے کی کوئی جلدی نہیں ہے؛ باالفاظ دیگر وہ موت سے ڈرتے ہیں۔ گو کہ مذاہب موت کے بعد کا پورا حال بیان کرتے ہیں، جنت کا بہترین نقشہ پیش کرتے ہیں، مگر درپردہ وہ تعلیمات بھی موت سے خوف ظاہر کرتی ہیں۔ مثلا شہدا کے لیے کہا جاتا ہے کہ انہیں مردہ نہ کہو، وہ زندہ ہیں۔ اس تاکید سے ظاہر ہوتا ہے کہ مردہ ہونا یا موت پسندیدہ ہرگز نہیں ہے۔
فجی کے قصبے سنگاتوکا میں ہمیں اندازہ ہوا کہ مقبول گانے والے کبھی نہیں مرتے۔ ان گلوکاروں کی آواز ان کے گزر جانے کے بعد بھی دنیا میں گونجتی رہتی ہے۔ وہ اپنی آواز کی وجہ سے ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔

نندی پہنچنے کے بعد ہم ویسی لیوو نامی جزیرے کا پورا چکر لگانا چاہتے تھے۔ گو کہ جزائر فجی کے اس سب سے بڑے جزیرے کا چکر ہم ایک دن میں لگا سکتے تھے مگر ہم تھوڑے تھوڑے فاصلے پہ رک کر مختلف قصبے دیکھنا چاہتے تھے۔

نندی سے سووا کی طرف چلے تو راستے میں مونگرے کے ساحل پہ واقع قصبے سنگاتوکا میں ٹہرے۔ مگر ایسا ہوا کہ نندی سے بس چلی، تھوڑے تھوڑے فاصلے پہ رکی اور چلتی ہی رہی۔ بہت آگے جا کر ہم نے کنڈکٹر کو یاد دلایا کہ ہمیں سنگاتوکا میں اترنا ہے تو اس نے اپنا سر پکڑ لیا۔ سنگاتوکا تو بہت پہلے نکل چکا تھا، اس کے منہ سے بامشکل نکلا۔
کیا؟ سنگاتوا نکل چکا ہے؟ ہم نے تو نندی میں بس میں سوار ہوتے وقت تمھیں تاکید کی تھی کہ ہمیں سنگاتوا میں اتار دینا۔ تم نے ہمیں وہاں کیوں نہیں اتارا؟
دراصل ہمیں جس ریزارٹ میں جانا تھا وہ سنگاتوا قصبے سے کچھ فاصلے پہ تھا۔ بس سنگاتوا کے مرکز شہر میں ٹہری تھی۔ مگر جب بس قصبے سے باہر نکلی تو کنڈکٹر آگے ایک موڑ پہ ہمیں اتارنا بھول گیا۔

کنڈکٹر نے وعدہ کیا کہ وہ ہمیں سنگاتوا پہنچانے کا انتظام کردے گا۔ بس اگلے قصبے پہ رکی تو ہم وہاں اتر گئے۔ کچھ دیر بعد ہمیں سووا سے نندی جانے والی ایک بس میں بٹھا دیا گیا۔ پچھلی بس کے کنڈکٹر نے وعدہ کیا تھا کہ ہم سے واپس جانے کا کرایہ نہیں لیا جائے گا، مگر یہ دوسری بس چلی تو تھوڑی ہی دیر میں کرائے کا تقاضہ ہوگیا۔ ہم نے کچھ دیر حجت کرنے کے بعد کرائے کی رقم دے دی۔

مونگرے کے ساحل کے ریزارٹ دراصل ان لوگوں کے لیے تھے جو دفتری مصروفیات سے وقت نکال کر دو ہفتے کی چھٹی پہ آئیں اور وہاں ساحل پہ ٹہر کر روز سمندر کے پانی میں نہانے اور دھوپ سینکنے میں اپنی تعطیلات گزار دیں۔ ہم ان سیاحوں میں ہرگز نہ تھے۔ اگلے دن جب سمندر کو تھوڑی دیر دیکھنے کے بعد ہمارا دل اکتا گیا تو ہم سنگاتوکا مرکز شہر کی طرف پیدل چل پڑے۔

ریزارٹ سے مرکز شہر تک بامشکل تین میل کا فاصلہ تھا۔ مگر اس راستے کی قباحت یہ تھی کہ ہم نندی سووا ہائی وے کے بالکل ساتھ چل رہے تھے۔ جب  کچھ دیر بعد ہائی وے پہ تیز رفتار گاڑیوں کی قربت سے پریشان ہوگئے تو ایک جگہ ٹیکسی کے انتظار میں کھڑے ہوگئے۔ اس وقت تک ہم قصبے کے مضافات میں پہنچ چکے تھے۔ کچھ ہی دیر میں ایک ٹیکسی مل گئی۔ ڈرائیور دو ڈالر میں ہمیں مرکز شہر میں چھوڑنے پہ راضی ہوگیا۔ ٹیکسی چل پڑی۔ ٹیکسی والے نے ٹیپ چالو کردیا۔ ایک جانی پہچانی موسیقی سنائی دی اور پھر دل کو چھوتی آواز۔ دل میرا یہ کہتا ہے تم میرے ہو۔ جسم و جان میں خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی۔

نازیہ حسن اگر آج زندہ ہوتی تو فجی کے ایک چھوٹے سے قصبے میں اپنی گونجنتی آواز سن کرکتنا خوش ہوتی ۔


Thursday, June 23, 2016

 

نندی میں اپنے لوگ










ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار دو سو چھیاسی

جون اٹھارہ، دو ہزار سولہ

نندی میں اپنے لوگ


علی حسن سمندطور

کیا آپ کو ویسی اور فجی میں کوئی مماثلت دکھائی [سنائی] دیتی ہے؟ دراصل برطانوی مہم جو کیپٹن کک کو یہی سنائی دیا تھا کہ بحرالکاہل کے ان جزائر پہ رہنے والے لوگ اپنے وطن کو ویسی نہیں بلکہ فجی کہہ رہے ہیں۔ آج دنیا میں بہت سے خطے ان ناموں سے نہیں جانے جاتے جن ناموں سے وہاں کے مقامی لوگ اپنے وطن کو کبھی جانتے تھے؛ ان خطوں کے نام بدیسیوں کے رکھے ہوئے ہیں۔ جزائر فجی کا تعلق بھی ان ہی خطوں سے ہے۔ جزائر فجی سے جنوبی ایشیا کا وہی تعلق ہے جو جنوبی امریکہ کے ملک سرینام کا جنوبی ایشیا سے ہے۔
نندی نامی قصبہ جزائر فجی کے جس جزیرے پہ ہے اسی جزیرے پہ ان جزائر کا دارالحکومت سووا بھی ہے۔ نندی اس جزیرے کے مغرب میں ہے جہاں سمندر کا ساحل زیادہ خوب صورت ہے۔ اسی وجہ سے نندی سیاحوں میں سووا کے مقابلے میں زیادہ مقبول ہے اور یہاں کا ہوائی اڈہ بھی سووا کے ہوائی اڈے سے بڑا ہے۔ آپ نندی پہنچیں تو آپ کو ہوائی اڈے پہ اونچے عہدوں پہ وہ لوگ نظر آئیں گے جو اپنے آپ کو ان جزائر کا اصل مقامی باشندہ خیال کرتے ہیں۔ مگر آپ جیسے ہی ہوائی اڈے سے باہر نکلیں  تو آپ کو لگے گا کہ آپ جنوبی ایشیا کے کسی شہر میں آگئے ہیں۔ ہم اپنی طرف کے ایک ٹیکسی ڈرائیور کے ساتھ ہوائی اڈے سے ہوٹل تک پہنچے۔ فجی میں رہنے والے اپنی طرف کے یہ لوگ ہندی سے ملتی جلتی ایک زبان بولتے ہیں۔ یہ زبان ایسی ہے کہ جب یہ لوگ اس زبان میں آپس میں بات کرتے ہیں تو آپ کو خیال نہیں ہوتا کہ اردو یا ہندی بولی جارہی ہے۔ مگر جب یہ لوگ برصغیر سے آنے والے اردو یا ہندی بولنے والوں سے گفتگو کرتے ہیں تو اچانک اس لہجے میں بولنا شروع ہوجاتے ہیں جو بمبئی میں بننے والی ہندی فلموں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ اس قسم کی ہندی ان لوگوں نے ان ہی فلموں سے سیکھی ہے۔
دراصل نیوزی لینڈ سے فجی جاتے ہوئے مجھے یہی سوچ کر غصہ آرہا تھا کہ ہمارے لوگ تعلیم میں اس قدر پیچھے کیوں ہیں؟ ہمیں وہ ڈائری کیوں نہیں ملتی جس میں جنوبی ایشیا سے فجی جانے والے ایک شخص نے ہر روز کا حال لکھا ہو۔ کلکتہ سے چلنے والے بحری جہاز میں چڑھنے سے لے کر فجی تک پہنچنے کی پوری داستان سناءی ہو اور یہ بتایا ہو کہ فجی پہنچ کر کس قسم کی مشقت اٹھانی پڑی اور اس مزدور کے فجی کے مقامی لوگوں اور انگریز افسران سے کس طرح کے تعلقات تھے۔ مگر قسمت کی یہی ستم ظریفی ہے کہ ہمارے وہ لوگ جو سب سے کٹھن اور [دوسروں کی نظروں میں] دلچسپ اور حیرت انگیز تجربات سے دوچار ہوتے ہیں، ان واقعات کو لکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ ان کی محیرالعقل داستان ان کی زندگی کے ساتھ ہی ختم ہوجاتی ہے۔ اگر کوءی اپنا شخص جان جوکھوں میں ڈال کر دوسری طرف سے زندہ باہر نکل آئے اور پھر اپنی بیتی کو کتاب کی صورت میں لکھے تو جان لیں کہ اس پہ مغرب کا اثر ہے۔ ذکر یقینا معظم بیگ کا ہورہا ہے۔
آپ ایک لمحے کو آنکھیں بند کر کے ۱۸۵۷ کی ناکام جنگ آزادی کے بعد کا جنوبی ایشیا خیال کیجیے۔ انگریز نئے طمطراق سے اس خطے پہ حکومت کررہے ہیں۔ انگریز مہم جوئوں کے بحری جہاز بحرالکاہل میں دندناتے پھر رہے ہیں۔ دوسری یورپی نوآبادیاتی طاقتیں جزائر فجی کے آدم خور قبائل سے خوفزدہ ہیں مگر انگریز انہیں رام کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ ان جزائر پہ قبائل کے ایسے سردار ہیں جو آدم خوری میں ایک دوسرے سے مقابلے پہ ہیں۔ جس سردار نے پچاس، سو سے کم انسان کھائے ہوں اسے کسی خاطر میں نہیں لایا جاتا۔ انگریز ان ہی سرداروں سے معاہدہ کر کے ان جزائر کا انتظام سنبھال لیتے ہیں۔
انگریز جزائر فجی میں رہنا نہیں چاہتے۔ یہاں کی آب و ہوا ان کے حساب سے اچھی نہیں ہے۔ یہاں کی کڑی دھوپ گوری رنگت کی دشمن ہے، مرطوب ہوا تیکھے نقوش کو موٹا کرنے کا کام کرتی ہے۔ مگر انگریز ان جزائر کو اپنے استعمال میں لانا چاہتے ہیں۔ خط استوا سے قریب ہونے کی وجہ سے ان جزائر پہ استوائی فصلیں اگائی جا سکتی ہیں، خصوصا یہ علاقہ گنے کی کاشت کے لیے موزوں ہے۔ مگر مقامی لوگوں کو کھیتی باڑی پہ لگانا مشکل کام ہے۔ مقامی لوگ ایک اور طرح سے زندگی گزارتے ہیں۔ جب دل چاہتا ہے، جہاں دل چاہتا ہے سو جاتے ہیں۔ جب بھوک لگتی ہے تو جنگل میں جا کر کھانے کے قابل پودے تلاش کرتے ہیں یا کسی جانور کا شکار کرتے ہیں۔ غرض کہ مقامی لوگوں کی زندگی میں کام کاج کا حصہ بس اتنا ہے جس سے کسی طرح کھانے پینے کا سہارا ہوجائے۔
انگریزوں کو جنوبی ایشیا بہت پسند ہے۔ اس پسند کی بڑی وجہ یہاں کی آبادی ہے۔ جنوبی ایشیا کے لوگ نہ صرف یہ کہ ذہین ہیں بلکہ حکام بالا کی بات کو آسانی سے مان جاتے ہیں۔ انہوں نے انگریز کی حاکمیت کو قبول کرلیا ہے؛ اب انگریز جیسا کہے گا یہ ویسا ہی کریں گے۔
مگر انسان پہ حاکمیت سے متعلق مغربی ادوار تبدیل ہوئی ہیں۔ اب غلامی سے کراہیت آتی ہے۔ پھر جزائر فجی میں جنوبی ایشیا کے مزدوروں کی مدد سے گنے کے کھیت کیسے لگائے جائیں؟ آسان حل موجود ہے۔ کلکتہ سے جہاز چل رہا ہے۔ بے روزگار حضرات جہاز میں چڑھ جائیں۔ جہاز میں چڑھنے سے پہلے انگریزی میں لکھے ایک مختصر معاہدے پہ دستخط کریں۔ دستخط کرنے کے لیے معاہدے کی سمجھ ضروری نہیں ہے۔ اس معاہدے کی رو سے مزدور پانچ برس تک فجی میں معمولی تنخواہ پہ نوکری کرے گا۔ ان پانچ برس کے دوران مزدور فجی چھوڑ کر واپس جنوبی ایشیا نہیں آسکتا۔ ہاں پانچ برس کے بعد واپسی ممکن ہے۔ یہ غلامی نہیں ہے، یہ بالرضا مشقت ہے۔ اب جنوبی ایشیا کے معاشی حالات ایسے ہیں کہ لوگ خود بخود اس کٹھن مشقت کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں تو اس میں انگریز کا کیا قصور ہے؟
ایک دفعہ کوئی شخص اپنی جوانی کے پانچ سال کسی جگہ لگا دے تو پھر اس بات کا امکان کم ہوتا ہے کہ وہ اس جگہ سے ہل کر کہیں اور جائے گا۔
پانچ سالوں بعد اگر ان مزدوروں کو یاد آتا کہ اب معاہدے کی معیاد ختم ہوگئی ہے، اب یہ واپس جا سکتے ہیں تو وہ حیرت سے سوچتے کہ واپس جانے کا کیا مطلب ہے۔ اس جگہ واپس جانا جو ان کی غیر موجودگی میں بہت بدل چکی ہوگی کیسا ہوگا۔ وہ پانچ سال اس جزیرے پہ رہے ہیں۔ اب ان کے آس پاس جو لوگ ہیں، وہی ان کے پیارے ہیں۔ اب یہی جگہ ان کا وطن ہے۔ اب بقیہ زندگی یہیں گزارنی ہے اور یہیں مرنا ہے۔


Labels: ,


Thursday, June 16, 2016

 

کرائسٹ چرچ، آک لینڈ، نندی




ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار دو سو پچاسی

جون بارہ، دو ہزار سولہ

 

کرائسٹ چرچ کے بڑے زلزلے کو آئے چار سال سے اوپر ہوگئے تھے مگر مرکز شہر میں تعمیراتی کام زور و شور سے جاری نظر آتا تھا۔ لگتا تھا کہ کرائسٹ چرچ نے تہیہ کیا تھا کہ جو عمارتیں زلزلے میں تباہ ہوئی تھیں اس بار ان عمارتوں سے اونچی عمارتیں بنانا تھیں اور ساتھ ہی ان نئی عمارتوں کی تیاری زلزلے کے جھٹکوں کو مدنظر کرتے ہوئے کرنی تھی۔
سنہ ۲۰۰۵ کے کشمیر کے ہولناک زلزلے کے بعد میرا جانا بالاکوٹ ہوا تھا۔ میں جب وہاں پہنچا تو قصبے میں ملبے کو اٹھانے کا کام جاری تھا اور ایک آدھ عمارتیں ہی کھڑی نظر آتی تھیں۔ ایسی ہی ایک ایستادہ عمارت کی طرف اشارہ کر کے ایک مقامی آدمی نے مجھے بتایا تھا کہ اس عمارت کی ایک دکان میں ایک نائی ہے جس نے لوگوں کی داڑھی کاٹنے سے انکار کیا  ہوا ہے۔ اس آدمی کا کہنا تھا کہ اس نائی کی اسی نیکی کی وجہ سے وہ عمارت زلزلے کی تباہی سے بچ گئی تھی۔ میں اس شخص کی یہ بات سن کر سوچتا رہا کہ سائنس کی دھونی سے ہمارے لوگوں کے فرسودہ اعتقادات نکالنے میں ابھی کتنا وقت اور لگے گا۔
اب نیوزی لینڈ کا سفر ختم ہوچکا تھا۔ ہمیں کرائسٹ چرچ سے علی الصبح آک لینڈ کے لیے روانہ ہونا تھی۔ اور ہوائی جہاز پکڑنے سے پہلے کرائے کی گاڑی واپس کرنا تھی۔ جس جگہ سے کرائے کی گاڑی لی تھی وہ دفتر ہوائی اڈے سے دو میل دور تھا۔ ہم کرائسٹ چرچ دن کی روشنی میں پہنچے تھے اور اس وقت ہوائی اڈے سے کرائے کی گاڑی کے دفتر تک جانے کے لیے شٹل موجود تھی مگر پو پھٹنے سے پہلے یہ شٹل دستیاب نہ تھی۔ منہ اندھیرے کرائے کی گاڑی واپس کرنے کے بعد ہوائی اڈے کیسے پہنچیں؟ ایک ترکیب یہ تھی کہ کسی ٹیکسی سروس سے ایک رات پہلے بات کی جائے اور پھر صبح گاڑی واپس کرنے کے بعد اس جگہ ٹیکسی کا انتظار کیا جائے۔ اور اگر رات کو بات کرنے کے باوجود ٹیکسی والا صحیح وقت پہ صحیح جگہ نہ پہنچا تو کیا ہوگا؟ بات یہ سمجھ میں آئی کہ دو میل کی کیا بات ہے، گاڑی واپس کر کے ہم پیدل ہوائی اڈے چلےجائیں گے۔ اس طرح ٹیکسی کے پیسے یعنی بیس ڈالر بھی بچ جائیں گے۔ بات ہماری سمجھ میں تو آگئی مگر دوسرے مسافروں کے دل کو نہ لگی۔ تو پھر سویرے ایسا ہی ہوا۔ دوسرے مسافروں کو سامان سمیت ہوائی اڈے پہ چھوڑنے کے بعد ہم گاڑی لے کر پلٹے اور کرائے کی گاڑی کے دفتر پہنچے۔ وہاں کرائے کی گاڑی مقررہ جگہ کھڑی کی اور چابی مخصوص ڈبے میں ڈالنے کے بعد ہوائی اڈے کی طرف پیدل چلنا شروع ہوئے۔ اس دفتر سے ہوائی اڈے تک کا راستہ ہم نے انٹرنیٹ پہ دیکھ لیا تھا۔ رات کے اس پہر ہوائی اڈے جانے والی سڑک سنسان تھی۔ کافی دیر بعد کوئی گاڑی وہاں سے گزر جاتی تھی۔ ہم اس سناٹے میں ہوائی اڈے کی طرف چلتے رہے۔ اس راستے میں ایک ہائی وے بھی پڑتی تھی۔ ہائی وے پہ پہنچ کر کچھ دیر انتظار کیا اور پھر جب دور دور تک کوئی گاڑی نظر نہ آئی تو بھاگ کر ہائی وے پار کی۔ اب ہم ہوائی اڈے کے قریب پہنچ گئے تھے۔ وہاں اچھی روشنی تھی۔ ہم ضد آرکٹک مرکز کے سامنے سے گزرتے ہوئے ہوائی اڈے کی عمارت میں داخل ہوگئے۔ وہاں پہنچ کر ہم نے فتح کا زوردار نعرہ لگایا۔ ہم بیس ڈالر بچانے میں کامیاب ہوگئے تھے۔
ہوائی جہاز کی ایک چھلانگ سے ہم کرائسٹ چرچ سے آک لینڈ پہنچے اور وہاں پہنچ کر ہمارا مقامی سفر ختم ہوگیا۔ آک لینڈ میں اس وقت ہلکی ہلکی بارش ہورہی تھی۔
نندی پہنچے تو ہم ایک بار پھر اپنے بچپن کے موسم میں پہنچ گئے تھے۔ فجی میں موسم گرم تھا۔ خط استوا سے قربت کا گرم موسم تو ہمیں برازیل میں بھی ملتا ہے۔ فجی کی خاص بات یہ تھی کہ انگریزوں کے پھیکے سیٹھے کھانوں سے ہماری جان چھٹ چکی تھی؛ اب ہمیں اپنی طرف کے مرچ مصالحوں والے کھانے دستیاب تھے۔


Labels: , ,


This page is powered by Blogger. Isn't yours?