Thursday, November 26, 2015

 

مرکز شہر میلبورن





ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار دو سو چھپن

نومبر بائیس، دو ہزار پندرہ


مرکز شہر میلبورن
 
اگلا دن میلبورن کے نام تھا۔ پرانا میلبورن دریائے یارا کے دونوں طرف جدید اور قدیم چھوٹی بڑی عمارتوں کا شہر ہے۔ دراصل مرکز شہر کی رونق ہی دریائے یارا سے ہے جس کے دونوں کناروں پہ لوگ پیدل چل رہے ہوتے ہیں اور مختلف نوع کے بازی گر لوگوں کو تماشہ دکھا کر مجمع اکھٹا کرتے ہیں۔ کچھ کچھ فاصلے پہ موجود پل سیاحوں کو دریا کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے جانے کا راستہ فراہم کرتے ہیں۔
انگریز اپنے جزیرے سے بحری جہاز سے نکلے اور جہاز کے ذریعے ہی دور دراز مقامات تک پہنچے۔ چنانچہ انگریزوں کو ہر وہ جگہ پسند آئی جہاں مخصوص جغرافیے کی وجہ سے بندرگاہ بنائی جا سکے اور جہاز سمندر کی طغیانی سے دور کھڑے کیے جا سکیں۔ بحری جہاز کو لنگر انداز کرنے کی اسی کسوٹی پہ کراچی پہ پورا اترا، سڈنی بھی، اور میلبورن بھی۔ اب ہم میلبورن بندرگاہ سمیت ان ہی علاقوں کو دیکھنے جا رہے تھے جہاں انگریز کی آمد ہوئی تھی۔ مگر اپنے مسافر خانے سے میلبورن کے مرکز شہر جانے سے پہلے ہمیں ایک اہم کام کرنا تھا۔ ہمیں نقد آسٹریلوی ڈالر حاصل کرنے تھے۔ آسٹریلیا ان مہذب معاشروں میں ہے جہاں آدمی پہ بھروسہ کیا جاتا ہے۔ مالی لین دین میں مستقل یہ وسوسہ نہیں رہتا کہ دوسرا آپ کو دھوکہ دے کر بھاگ جائے گا۔ قانون آپ کے ساتھ ہے۔ قانون آپ کے ساتھ زیادتی کرنے والے کو ذرا سی دیر میں اپنی گرفت میں لے لے گا۔ اور اسی وجہ سے آسٹریلیا میں ہرجگہ ہمارا کریڈٹ کارڈ چل رہا تھا اور ہمیں نقد آسٹریلوی ڈالر جیب میں رکھنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ مگر بعض جگہ کریڈٹ کارڈ کے استعمال میں نقصان ہوتا تھا۔ یہ ایسی جگہیں تھیں جہاں نقد کے مقابلے میں کریڈٹ کارڈ کے استعمال پہ اضافی محصول تھا۔ کم بجٹ مسافر ہونے کے ناتے ہمیں ایسے سودے برے لگتے تھے اور اسی وجہ سے ہم اپنے ساتھ تھوڑی نقدی رکھنا چاہتے تھے۔ آسٹریلوی ڈالر حاصل کرنے کی سعی دراصل چند روز سے جاری تھی۔ سڈنی میں رقم تبدیلی کے بارے میں معلوم کیا تھا مگر نقد امریکی ڈالر سے نقد آسٹریلوی ڈالر کا سودا اچھا معلوم نہ دیا تھا۔ کچھ تحقیق سے معلوم ہوا کہ اے ٹی ایم سے رقم نکلوانا سب سے زیادہ سودمند ہوگا۔ اس سلسلے میں اس بینک کی تلاش شروع ہوئی جو ہمارے امریکی بینک کا آسٹریلیا میں ساتھی ہو تاکہ آسٹریلیا کا وہ بینک ہم سے اپنے ای ٹی ایم کے استعمال کی اضافی رقم نہ اینٹھے۔ آج کے دور میں ہرقسم کی معلومات انٹرنیٹ کے ذریعے حاصل ہوتی ہیں۔ مسافر خانے کا انٹرنیٹ کنکشن تیزرفتار تھا، ذرا سی دیر میں مطلوبہ بینک کے بارے میں معلوم ہوگیا اور یہ بھی معلوم ہوگیا کہ اس بینک کی ایک اے ٹی ایم اس مسافر خانے سے بہت زیادہ دور نہیں ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ بین الاقوامی سفر کرنے والے اکثر مسافروں کو یہ سب باتیں اچھی طرح معلوم ہوں گی۔ اس کے باوجود میں یہ سب کچھ اپنے ان احباب کے لیے لکھ رہا ہوں جو میرے اس طرح کے طویل سفر پہ حیران ہوتے ہیں۔ ان کا خیال ہوتا ہے کہ بیرون ملک سفر بہت مہنگا سودا ہے۔ کم بجٹ مسافر انہیں بتاتے ہیں کہ سفر ایک مہنگا سودا ان لوگوں کے لیے ہوتا ہے جو صرف ہفتے بھر کے لیے کہیں جاتے ہیں؛ ایک جگہ سے دوسری جگہ اڑ کر پہنچتے ہیں، مہنگے ہوٹل میں ٹہرتے ہیں، اور ہر کھانا باہر کھاتے ہیں۔ کم بجٹ مسافر ایسا نہیں کرتے۔ یہ مسافر اپنے سفر کا ہر دن ایک مخصوص بجٹ کے اندر گزارتے ہیں اور اسی وجہ سے کم بجٹ مسافر ہر خرچ سے پہلے خوب سوچتے ہیں۔ اور ایک سفر ہی کیا اگر زندگی ہی ایسے گزاری جائے کہ ہر مالی فیصلہ بہت سوچ سمجھ کر کیا جائے تو شاید لوگ مشکلات میں نہ گھریں کہ موجودہ دنیا میں اکثر مشکلات کی جڑ مالی وسائل اور ان کے موثر استعمال میں ہوتی ہے۔
میلبورن کے مرکز شہر میں کرائون نامی ایک جوا خانہ بڑی جگہ گھیرے ہوئے ہے۔ میلبورن میں رہنے والے ہمارے ساتھیوں نے مشورہ دیا تھا کہ ہم کرائون جوا خانے کے گیراج میں گاڑی کھڑی کرنے کے بعد پیدل مرکز شہر کی سیر کریں۔ ہم نے ایسا ہی کیا بلکہ اس سے ایک درجہ بہتر کام کیا۔ اور وہ یہ کر ہمیں جواخانے کے باہر روڈ پہ گاڑی کھڑی کرنے کی جگہ مل گئی۔ اس طرح جواخانے کے گیراج میں گاڑی کھڑی کرنے کی فیس سے بچت ہوئی۔ اب اگر میں آپ کو پیسے بچانے کے سارے قصے بتا ہی رہا ہوں تو یہ بھی بتا دوں کہ اس روز دوپہر کا کھانا کیسے مفت کھایا گیا۔ کہتے ہیں کہ شکرخورے کو شکر ملتی ہے۔ اسی طرح کم بجٹ مسافر کو بھی کفایت شعاری کے مواقع قدرت فراہم کرتی ہے۔ روڈ کے ساتھ گاڑی کھڑی کر کے دریائے یارا کی طرف چلے تو راستے میں لوگوں کی ایک قطار دیکھی اور دیکھا کہ جو قطار سے فارغ ہوتا ہے اس کے ہاتھ میں کھانے کے ایک پلیٹ ہوتی ہے۔ ہم ٹھٹھکے۔ پوچھا کہ کیا قصہ ہے۔ معلوم ہوا کہ وہاں نئے اپارٹمنٹ بنے ہیں۔ اگر آپ دفتر کے اندر جائیں، اپارٹمنٹ کے بارے میں بازپرس کریں، اور اپنا ای میل ایڈریس اور ٹیلی فون نمبر دفتر والوں کو دیں تو آپ کو مفت کھانے کا کوپن ملے گا۔ قطار میں کھڑے ہوں اور کوپن کی مدد سے مفت کھانا حاصل کریں۔ اس وقت تک صبح کا ناشتہ پیٹ میں تھا اور اگلے کھانے کی کوئی گنجائش نہیں تھی مگر سوچا کہ کبھی تو بھوک لگے گی، اس وقت تو کھانا پکڑو۔ چنانچہ دفتر کے اندر جا کر نئے اپارٹمنٹ کی قیمت معلوم کی، کھانے کا کوپن حاصل کیا، اور پھرقطار میں لگ کر کھانا لیا۔
ہم صبح سے شام تک میلبورن میں پھرتے رہے۔ میلبورن کے مرکزی حصے میں تمام ٹرام مفت چلتی ہیں۔ ایک ایسی ہی ٹرام میں سوار ہو کر پورے شہر کا چکر لگایا اور مشہور زمانہ میلبورن کرکٹ گرائونڈ یعنی ایم سی جی کے قریب اترے۔ ٹرام اسٹیشن سے میلبورن کرکٹ گرائونڈ کی طرف پیدل چلتے ہم نے ساتھ سڑک پہ دوڑتی گاڑیوں کو دیکھا اورسوچا کہ ایم سی جی جاتے ہوئے ہمارے ملک کے کتنے ہی کھلاڑی اس راستے سے گزرے ہوں گے۔ ہم نے میلبورن کرکٹ گرائونڈ کے اندر داخل ہوکر وہاں کی تصویریں اتاریں اور پھر باہر آگئے۔ اس تاریخی اسٹیڈیم کے باہر مشہور آسٹریلوی بائولر شین وارن کا مجسمہ نصب ہے اور مجسمے کے نیچے لگی تختی میں دعوی کیا گیا ہے کہ شین وارن نے لیگ اسپن کے مردہ فن کو زندہ کیا۔ ہم اس بڑ کو پڑھ کر زیر لب مسکرائے۔ ہمارا خیال تھا کہ لیگ اسپن تو کبھی مردہ فن نہ تھا۔ ہم اپنے عبدالقادر کو شین وارن سے بڑا لیگ اسپن کا جادوگر مانتے ہیں۔ مگر ہمارے ماننے یا نہ ماننے سے کیا فرق پڑتا ہے۔ ہم اس وقت آسٹریلیا میں تھے اور شین وارن ایک آسٹریلوی کھلاڑی ہے۔ میلبورن شین وارن کی مدح سرائی میں جو کرے تھوڑا ہے۔



Labels: , , , , , , ,


Thursday, November 19, 2015

 

میلبورن





ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار دو سو پچپن

نومبر پندرہ، دو ہزار پندرہ

  
حسیب کے ساتھ یہ طے پایا کہ ہم سب حسیب کے گھر جائیں گے۔ وہاں دوپہر کا کھانا ہوگا۔ پھر دیر تک گپ بازی ہوگی اور شام تک اور لوگوں کو جمع کرنے کی کوشش کریں گے۔ شمالی امریکہ میں تو پاکستان سے مہمان آتے رہتے ہیں اور ان کی ہلکی پھلکی خاطر تواضع کی جاتی ہے مگر آسٹریلیا کا معاملہ اور ہے۔ کوئی بھولا بھٹکا آسٹریلیا پہنچ جائے تو آسٹریلیا میں مقیم میزبان اس مہمان کو ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں۔ کچھ یہی معاملہ حسیب کے گھر پہ ہوا۔ وہاں حلیم سے لے کر بریانی تک مختلف کھانے تیار تھے۔ کھانے کا اسی فی صد مزا کھانے والے کی بھوک میں ہوتا ہے۔ اس وقت تک صبح کا ناشتہ نچلی آنت کی طرف روانہ ہوچکا تھا، بھوک کھل گئی تھی۔ بس پھر کیا تھا ہم کھانے پہ ٹوٹ پڑے۔ اور یہ سلسلہ دیر تک چلا۔ شام تک حسیب نے ہماری ایک پرانی ساتھی صائمہ کو بھی گھیر لیا۔ صائمہ جب ہمارے ساتھ پڑھتی تھیں تو ان سے اتنی بات چیت نہیں تھی مگر اب کراچی سے ہزاروں میل بات اور تھی۔ صائمہ اپنے شوہر اور لڑکی کے ساتھ طے شدہ ملائیشین ریستوراں پہنچ گئیں۔ حسیب کے اہل خانہ اور ہم سب لوگ بھی اسی ریستوراں پہ پہنچ گئے۔
اس ملائیشین ریستوراں میں کھانا کھاتے ہوئے آسٹریلیا کا تیزی سے بدلتا آبادیاتی [ڈیموگرافک] نقشہ سمجھنا آسان تھا۔ دنیا آج جس آسٹریلیا سے واقف ہے وہ انگلستان سے آنے والے لوگوں نے بسایا تھا۔ برطانوی راج کے عروج کے زمانے میں انگلستان کے جہاز دنیا بھر کے سمندروں میں دوڑ رہے تھے۔ ان مہم جو لوگوں نے دو دراز کے علاقے دریافت کیے۔ جہاں گنے کی کاشت ممکن تھی وہاں جنگل کا صفایا کر کے گنے کے کھیت لگائے، جہاں چائے اگائی جاسکتی تھی وہاں درخت اور جھاڑیاں کاٹ کر چائے کے باغات اگائے گئے۔ مگر ہر دریافت کی جانے والی جگہ انگریز کو بس جانے کے لیے صحیح معلوم نہ دیتی تھی۔ یہاں انگریز سے مراد صرف انگلستان کے لوگ ہیں؛ اردو بولنے والے بعض اوقات ہر یورپی نسل شخص کو انگریز کہتے ہیں، یہ قلم گھسیٹیا انگریز لفظ کے اس استعمال سے اختلاف رکھتا ہے۔ انگریز ایسی جگہ کو اپنا مستقلا گھر بنانا چاہتے تھے جہاں کا موسم انگلستان کے موسم سے ملتا جلتا ہو۔ شمالی نصف کرہ میں تو ایسے سارے مقامات عرصے سے آباد تھے۔ جنوبی نصف کرہ میں ایسے دو مقامات انگریزوں کے حصے میں آئے۔ ایک جنوبی افریقہ اور دوسرا آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ۔ ان تینوں جگہوں سے مقامی آبادی کی حتی الامکان چھٹی کر کے ان علاقوں کو انگلستان سے آنے والے لوگوں سے بسایا گیا۔ امریکہ کی طرح آسٹریلیا بھی مختلف کولونیوں کی صورت بسا۔ آسٹریلیا ایک عرصے تک انگلستان کے ساتھ سیاسی تعلق سے بندھا رہا مگر بالاخر ایک آزاد ملک بن کر ابھرا۔
واضح رہے کہ دوسری یورپی طاقتوں کے مقابلے میں انگلستان نے صرف ایک باغی نوآبادی کی جنگ کے مزے چکھے ہیں۔ اسے کہتے ہیں تلخ تجربے سے فورا سبق حاصل کرلینا۔ یعنی امریکہ کی جنگ آزادی کے بعد انگلستان کو عقل آگئی کہ جب کسی نوآبادی میں بغاوت کی لہر دیکھو تو بات خراب ہونے سے پہلے ہاتھ ملا کر، گلے مل کر وہاں سے رخصت ہوجائو۔ آسٹریلیا بھی اسی طرح خوش اسلوبی سے انگلستان کے سیاسی اثر سے باہر آیا تھا۔
انگلستان کی وہ نوآبادیاں جہاں نووارد انگریزوں کے مقابلے میں مقامی آبادی کی اکثریت تھی انہیں بھی انگریز نے دوسری جنگ عظیم کے بعد ایک ایک کر کے خالی کردیا۔ انگریز نے کسی نوآبادی میں ایسی جنگ نہیں لڑی جیسی فرانس نے الجزائر میں  یا ہسپانیہ نے جنوبی امریکہ میں لڑی۔
ہمارے علاقے یعنی جنوبی ایشیا کی انگریز سے آزادی کے سلسلے میں بہت سے لوگوں کو مغالطہ ہے کہ ہمارے علاقے میں سیاسی طاقتیں جو تحریکیں عدم تشدد [نان وائلینس] کے جھنڈے تلے چلا رہی تھیں ان سے گھبرا کر انگریز ہمارے خطے سے رخصت ہوا۔ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ دنیا میں صرف ایک زبان سنی جاتی ہے اور وہ زبان ہے طاقت کی زبان۔ جب آپ بکرے کی قربانی کرنا چاہیں تو وہ آپ کے ارادے بھانپ کر کیسے شور مچاتا ہے، عدم تشدد احتجاج سے ہر ممکن آپ کو قتل کے ارادے سے باز رکھنے کی کیا کیا کوشش نہیں کرتا۔ مگر آپ اس کی ایک نہیں سنتے، ذرا سی دیر میں بکرے کی گردن پہ چھری چلا دیتے ہیں۔ اگر منمنانے کے بجائے بکرا بھی ایک چھرا لے کر آپ کے مقابلے پہ آئے تو شاید اس کے احتجاج میں آپ زیادہ وزن محسوس کریں۔
دوسری جنگ عظیم میں انگریز نے نوآبادیوں سے بڑی تعداد میں جوان جنگ لڑنے کے لیے بھرتی کیے تھے۔ جنگ عظیم ختم ہونے کے بعد یہ لڑاکا، تجربہ کار، کہنہ مشق لوگ جب واپس اپنے اپنے علاقوں کو پلٹے تو انگریزوں کو یہ بات سمجھ میں آگئی کہ اگر اب کی بار ہندوستان میں انگریز کے خلاف فوجی بغاوت ہوئی تو وہ ۱۸۵۷ کے غدر سے بہت مختلف نوعیت کی ہوگی۔ سو سال پہلے کی بغاوت میں مقامی آبادی کے پاس نہ تو جدید اسلحہ تھا اور نہ ہی اس کے استعمال کی تعلیم اور تجربہ۔ جنگ عظیم ختم ہونے کے دو سالوں کے اندر انگریز پرامن طریقے سے جنوبی ایشیا چھوڑ کر اپنے جزیرے کی طرف پلٹ گیا۔
بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔ چالیس کی دہائی میں آسٹریلیا اور انگلستان دو الگ الگ ملک تو بن گئے مگر آسٹریلیا کی دلچسپی انگلستان جیسا ہی ایک ملک بن کر رہنے میں رہی۔ اس نسل پرستی کے پیچھے آسٹریلیا کی سیاسی قیادت کا یہ نعرہ تھا کہ ہم آسٹریلیا کو ایک بہترین اور مہذب ملک کے طور پہ دیکھنا چاہتے ہیں اس لیے ہم صرف انگریزوں کو اس ملک میں بسنے کی سہولت دیں گے۔
مگر پچھلی صدی امریکہ کی صدی تھی بلکہ اس وقت تک کی نئی صدی بھی امریکہ ہی کی ہے۔ دنیا کے تمام معاملات امریکہ کے حساب سے چل رہے ہیں۔ دنیا میں ہمیشہ اخلاقی اقدار طاقتور قوموں کے حساب سے رائج ہوتی ہیں۔ امریکہ کی طاقت کی وجہ سے آج کی دنیا میں جلد یا بدیر وہی اخلاقی اقدار رائج ہوں گی جو امریکہ میں رائج ہیں۔
چنانچہ جب امریکہ میں ساٹھ کی دہائی میں نسلی برابری کی ہوا چلی تو اس کے اثرات پوری دنیا پہ نمودار ہوئے۔ جنوبی افریقہ تو ایک خول میں سمٹ کر بیٹھ گیا اور اس نے اگلی تین دہائیاں اس طرح نکال دیں مگر آسٹریلیا نے ایسا نہ کیا۔ وہاں بتدریج نسل پرست پالیسیاں ختم کی گئیں۔ یہ سلسلہ اب تک چل رہا ہے اور آسٹریلیا اپنے جغرافیائی خطے کے زمینی حقائق کے حساب سے ڈھلتا جارہا ہے۔ ہر چہ درکان نمک رفت، نمک شد۔
پچھلی چار دہائیوں میں آسٹریلیا میں آنے والے والی اسی سیاسی تبدیلی کی وجہ سے اس روز پاکستانی تارکین وطن آسٹریلوی میزبان، پاکستان سے آنے والے مہمانوں کو لے کر ایک ملائیشین ریستوراں میں بیٹھے کھانا کھا رہے تھے۔
پاپارچ نامی وہ ملائیشین ریستوراں بہت مقبول تھا۔ وہاں کھانا کھانے کے بعد جب ریستوراں کے شور میں گفتگو کرنے میں مشکل پیش آئی تو سب وہاں سے اٹھ کر حسیب کے گھر پہنچ گئے جہاں رات گئے تک چائے کا سلسلہ چلا۔ جب رات کے اگلے پہر حسیب سے رخصت لی تو ہماری ایک اور مشکل حل ہوچکی تھی۔ حسیب کے پاس ایک اضافی راہ نما تھا جو انہوں نے ہمیں ادھار دے دیا تھا۔ جب تک آسٹریلیا میں رہیں اس راہ نما کو استعمال کریں؛ یہاں سے روانہ ہوتے وقت اسے حسیب کو واپس کر جائیں۔


Thursday, November 12, 2015

 

میلبورن میں صبح










ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار دو سو چوون

نومبر آٹھ، دو ہزار پندرہ


میلبورن میں صبح
 

  میلبورن جاگ چکا تھا۔ میلبورن کے علاقے بلیک برن میں واقع بلوبل بیڈ اینڈ بریک فاسٹ نامی اس سرائے میں رات اچھی گزری تھی۔ صبح جب آنکھ کھلی تو سردی کا احساس ہوا۔ باہر سورج چمک رہا تھا مگر موسم سرد تھا۔ رات کو دونوں کیمرے، ٹوتھ برش، اور لیپ ٹاپ چارجر پہ لگا دیے تھے۔ ان تمام آلات کی بیٹری اس وقت تک چارج ہوچکی تھی۔
کمرے کے کرائے میں صبح کا ناشتہ شامل تھا۔ ناشتے کا وقت نو بجے تک تھا اس لیے جلدی جلدی تیار ہو کر نو بجے سے پہلے ناشتے کی میز پہ پہنچ گیا۔ اس وقت تک اس گھر میں ٹہرنے والے دوسرے مہمان ناشتہ کر کے وہاں سے روانہ ہوچکے تھے۔ مگر جولی وہاں موجود تھی۔ جولی اس گھر میں دیکھ بھال کا کام کرتی تھی۔ اس نے مسکرا کر مجھے ناشتے پہ خوش آمدید کہا۔ اس کا لہجہ سن کر میں نے اس کے جغرافیائی تعلق کے بارے میں رائے قائم کرنے کی کوشش کی۔ مگر جولی نے جلد میری مشکل حل کردی۔ وہ بہت باتونی تھی۔ اس نے ذرا سی دیر میں مجھے بتادیا کہ اس کا تعلق ہنگری سے تھا۔ جولی نے بتایا کہ جب سنہ ۵۶ میں ہنگری میں اس وقت کی حکومت کے خلاف بغاوت ہوئی تو اس کی عمر تیرہ برس تھی۔ جولی کو اس شورش میں  اندازہ ہوگیا کہ اب ہنگری میں اس کا گزارا مشکل تھا۔ وہ سنہ ۷۸ میں آسٹریلیا چلی آئی۔ آسٹریلیا کا انتخاب اس نے اس لیے کیا کیونکہ سنہ ۵۶ ہی میں میلبورن میں اولمپکس ہوئے تھے اور اس طرح ہنگری میں رہتے ہوئے جولی آسٹریلیا سے واقف ہوگئی تھی۔ آسٹریلیا آنے کی ایک اور وجہ یہ تھی کہ دوسرے مغربی ممالک کے مقابلے میں جولی کے لیے آسٹریلیا آنا آسان تھا۔
ایک دن پہلے میں نے اس سرائے کے مالک کے آخری نام پہ غور کیا تھا۔ وہ نام یقینا مشرقی یورپ کا معلوم ہوتا تھا۔ میں نے جولی سے پوچھا کہ آیا مالک مکان کا تعلق بھی ہنگری سے تھا۔ جولی نے اثبات میں جواب دیا مگر بتایا کہ مالک مکان کی پیدائش یہیں آسٹریلیا کی تھی، وہ ہنگیرین سمجھ تو سکتا تھا مگر بول نہیں سکتا تھا۔ جب کہ جولی اب تک اپنے پرانے ملک سے جڑی ہوئی تھی۔ جولی نے بتایا کہ وہ صبح ہنگری کے ایک ٹی وی چینل کی خبریں دیکھ کر آئی تھی۔ وہ وہاں کے حالات سے بہت زیادہ پرامید نہیں تھی۔ یہ تارکین وطن اپنی جائے پیدائش کو ترک کرنے کے باوجود ایک ان دیکھی نال سے اس جغرافیے کے ساتھ جڑے ہوتے ہیں، وہاں نہ رہتے ہوئے بھی اس جگہ کے حالات سے آگہی رکھنے کی کوشش کرتے ہیں، اور اپنی جنم بھومی کی  سیاسی ابتری اور معاشی زبوں حالی پہ دل ہی دل میں کڑھتے رہتے ہیں۔
جولی کی عمر ستر سے اوپر تھی مگر وہ پھرتی سے کام کررہی تھی۔ اس نے بتایا کہ اسے اس سرائے میں صبح صرف چند گھنٹے ہی کام کرنا ہوتا ہے، پھر وہ اپنے گھر چلی جاتی ہے۔ اس کا گھر وہاں سے کچھ ہی فاصلے پہ تھا جہاں وہ پیدل چل کر جاتی تھی۔
میں نے جب جولی کو بتایا کہ میری ہنگری سے خوش گوار یادیں وابستہ ہیں تو وہ اس بات پہ بہت خوش ہوئی۔ تم بوداپست میں کہاں ٹہرے تھے؟ تم فلاں جگہ گئے؟ تم نے فلاں ریستوراں سے کھانا کھایا؟ وہ اشتیاق سے سوال کرتی رہی اور میں ذہن پہ بہت زور ڈال کر پرانی یادوں کو تازہ کرنے کی کوشش کرتا رہا۔
ہنگری سے میرا ایک رشتہ میرے بچپن سے وابستہ ہے۔ چچا مرحوم اسرار حسن حبیب بینک میں زرمبادلہ ڈپارٹمنٹ میں کام کرتے تھے۔ ان کے پاس دنیا بھر سے ڈاک آتی تھی۔ وہ ڈاک کے لفافوں سے ٹکٹ کاٹ کر میرے لیے لے آتے۔ میں ان ٹکٹوں کو اپنی ٹکٹ البم میں ملکوں کے حساب سے سجاتا۔ ایک طرح کے ٹکٹوں پہ میگیار پوستا لکھا ہوتا۔ مجھے پہلی دفعہ جب ایسا ٹکٹ ملا تو میں حیران ہوا کہ وہ کس ملک کا ٹکٹ تھا؟ میں میگیار نامی کسی ملک سے واقف نہ تھا۔ آج انٹرنیٹ کے اس دور میں یہ کیا ہوتا ہے، یہ صاحب کون ہیں، یہ شہر کہاں ہے، جیسے سوالات کسی شخص سے پوچھنا سرگی برن اور لیری پیج کی توہین کرنے کے مترادف خیال کیا جاتا ہے۔ ان دو جوانوں نے اپنی عقل اور محنت سے گوگل جیسا اعلی سرچ انجن بنا تو دیا، اب گوگل کے علاوہ کسی اور سے کچھ پوچھنے کی کیا تک ہے؟ مگر جس زمانے میں پانچویں جماعت میں پڑھنے والا ایک لڑکا میگیار پوستا والے ڈاک ٹکٹ کو حیرت سے دیکھ رہا تھا اس وقت انٹرنیٹ جیسی سہولت سالوں دور تھی۔ اگلی بار چچا سے ملاقات ہوئی تو میں نے ان سے یہ سوال پوچھا۔ انہوں نے بتایا کہ اس ٹکٹ کا تعلق ہنگری سے تھا۔ اس وقت یہ معلوم ہوا کہ اس دنیا کے بہت سے علاقوں اور ریاستوں کے لوگ اپنے جغرافیائی خطے کو ایک نام سے یاد کرتے ہیں جب کہ وہاں سے باہر رہنے والے اسی جغرافیے کو کچھ اور کہہ کر پکارتے ہیں۔
چھوٹے بچوں کو نت نئے خیالات سے متعارف کرنا بہت احسن کام ہے۔
میلبورن میں یوں تو سیاحتی دلچسپی کے کئی مقامات ہیں مگر میرے لیے اس شہر میں سب سے بڑی دلچسپی حسیب شرر سے ملاقات تھی۔ حسیب ڈی جے کالج میں میرے ساتھ تھا۔ پھر جامعہ این ای ڈی میں بھی ہم دونوں نے ساتھ وقت گزارا۔ ترقی پزیر ملک میں ایک پھول کا رہا سہا عرق پینے کے بعد اس ویرانے سے گھبرا کر یہ مکھیاں ادھر ادھر روانہ ہوگئیں۔ کچھ مکھیاں مشرق وسطی کی طرف نکل گئیں، بہت سی شمالی امریکہ کی طرف، اور ایک آدھ نے آسٹریلیا کا رخ کیا۔ حسیب کا شمار گنتی کے ان ہی چند لوگوں میں ہوتا ہے جو اس یک ملکی براعظم میں آباد ہو گئے۔  حسیب سے گزری رات بات ہوئی تھی اور صبح ملاقات کا وقت طے ہوگیا تھا۔ حسیب وقت مقررہ پہ ہمارے ٹھکانے پہ موجود تھے۔ حسیب ایک نہایت ہنس مکھ شخص ہے۔ ہم دونوں کئی دہائیوں کے بعد ایک دوسرے سے مل رہے تھے۔ ہم زور سے گلے ملے، حسیب اپنی پرانی عادت کے عین مطابق مستقل ہنستا جارہا تھا۔ میں نے کہا، یار حسیب، جب ڈی جے میں تمھارا ساتھ تھا تو تمھارے منہ پہ یہی ہنسی تھی اور تمھارے سر پہ بال تھے۔ اب صرف تمھارے منہ پہ ہنسی ہے۔ میرے اس مذاق پہ حسیب اور ہنسا اور ہنس ہنس کر دہرا ہوگیا۔




Labels: , ,


This page is powered by Blogger. Isn't yours?