Monday, February 25, 2013

 

اسلامی جمہوریہ نہیں صرف جمہوریہ پاکستان



فروری پچیس، دو ہزار تیرہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار ایک سو چھبیس


اسلامی جمہوریہ نہیں صرف جمہوریہ پاکستان



سال بھر پہلے میرا کراچی جانا ہوا تو میں نے گھر میں موجود پرانے البم میں لگی ان تصاویر کو جن کے سفید کنارے وقت گزرنے کے ساتھ پیلے پڑتے جا رہے  تھے، البم سے نکال کر اسکین کروالیا۔ اس طرح یہ تصاویر عددی [ڈیجیٹاءز] ہونے کے ساتھ محفوظ ہوگءیں۔ ان تصاویر میں میرے بچپن کی ایک تصویر ہے جو غالبا میری بسم اللہ کی تقریب پہ لے گءی تھی۔ اس تصویر میں میری بہن اور میں ایک کھلے قرآن پہ انگلی رکھ کر ادب سے بیٹھے ہیں۔ اس تصویر کو دیکھ کر مجھے خیال ہوتا ہے کہ بسم اللہ کی اس تقریب پہ میری عمر پانچ برس رہی ہوگی۔ اس تقریب کے بعد مجھے مستقل قرآن پڑھایا گیا حتی کہ میں نے قریبا نو سال کی عمر میں قرآن ختم کر لیا۔ یقینا اس موقع پہ آمین کی تقریب بھی ہوءی ہوگی مگر اس تقریب کی کوءی تصویر موجود نہیں ہے۔ قرآن ختم کرنے کے بعد میں گاہے بگاہے قرآن خوانی کی محفلوں میں شرکت کرتا رہا۔ ایسی محفلوں میں قرآن کسی گزر جانے والے کے ایصال ثواب کے لیے پڑھا جاتا ہے۔ قرآن کے تیس پارے کمرے میں ایک میز پہ رکھے ہوتے ہیں۔ قرآن خوانی میں شرکت کرنے والے جیسے جیسے محفل میں آتے ہیں اس وقت تک نہ پڑھے جانے والے سیپاروں میں سے ایک اٹھا کر پڑھنا شروع کر دیتے ہیں حتی کہ سارے سیپارے پڑھ لیے جاتے ہیں۔ اگر پڑھنے والے زیادہ ہوں تو قرآن کو ایک سے زاءد بار ختم کیا جاتا ہے اور بہت فخر سے بتایا جاتا ہے کہ اس محفل میں کتنے قرآن ختم ہوءے۔  قصہ مختصر یہ کہ میں نے بہت دفعہ قرآن پڑھا مگر بغیر سوچے سمجھے۔ سچ پوچھیے تو آپ قرآن پڑھنے میں ایسی مہارت حاصل کر سکتے ہیں کہ تیزگام کی  رفتار سے قرآنی آیات پڑھتے رہیں اور اپنے ذہن میں دوسرے ہی معاملات کو حل کرتے رہیں۔ پھر بہت وقت گزر گیا اور میں نے قریبا تیس سال کی عمر میں از سرنو قرآن کو پڑھا۔ اب کی بار میں نے قرآن کو اس علمی جستجو سے پڑھا جس جستجو سے میں نے گیتا پڑھی، یا افلاطون کی ریپبلک اور میکیاویلی کی دی پرنس پڑھی۔ اور قرآن کے اسی مطالعے سے میں نے اس کے متعلق ایک آزاد راءے قاءم کی، کسی مبلغ، کسی مولوی، کسی امام کی تفسیر سے متاثر ہوءے بغیر۔ اس مطالعے سے مجھے یہ بات سمجھ میں آءی کہ قرآن اپنے موضوعات کی وسعت کے حساب سے ایک بہترین کتاب ہے۔ اس کتاب میں بہت سے تاریخی واقعات ہیں جن کو بیان کرنے کا مقصد لوگوں کو عبرت دلانا اور ہوشیار کرنا ہے۔۔ تاریخی واقعات کے ساتھ قرآن ایک ہدایت کی کتاب ہے۔ یہ کتاب آپ کو بتاتی ہے کہ اللہ تعالی کن اعمال کو پسند کرتا ہے اور کن باتوں کو پسند نہیں کرتا۔ کسی بھی مسلمان کی زندگی کا اصل مقصد اللہ کی رضا حاصل کرنا ہے۔ یہ سمجھنا غلط نہ ہوگا کہ قرآن وہ نسخہ کیمیا ہے جو مسلمانوں کو اپنے پروردگار کے سامنے سرخرو ہونے کے طریقے بیان کرتا ہے۔ مگر ان سب باتوں کے باوجود قرآن ایک واضح ہدایت کی کتاب نہیں ہے بلکہ عمومی ہدایت کی کتاب ہے۔ مثلا اس ہدایت کے بارے میں غور کیجیے کہ اللہ ظلم کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ یہ ایک بہت واضح ہدایت نہیں ہے کیونکہ یہ واضح نہیں ہے کہ ظلم کی تعریف کیا ہے۔ ممکن ہے بعض لوگوں کا خیال ہو کہ ظلم کی تعریف سب پہ واضح ہے چنانچہ یہ سمجھانے کی ضرورت نہیں ہے کہ ظلم کیا ہوتا ہے۔ مگر میں اس راءے سے اختلاف کروں گا اور یہ باور کروں گا کہ الفاظ کے معنی وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتے جاتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ چودہ سو سال پہلے ظلم کے جو معنی تھے، آج بھی ظلم کے وہ معنی ہوں۔ ایک مثال سے اس بات کی وضاحت کرنا چاہوں گا۔ موجودہ عہد کی اخلاقی اقدار کے حساب سے کسی انسان کا دوسرے انسان کو غلام بنا کر رکھنا بہت بڑا ظلم ہے۔ عقل حیران ہوتی ہے کہ ان ظالموں کے ذہن کیسے بنتے ہیں کہ وہ اپنے جیسے ایک دوسرے انسان کو بغیر اجرت دیے اپنا غلام بنا کر رکھیں، اس غلام کو اپنی ذاتی ملکیت خیال کریں اور غلام کو کوءی ایسا موقع فراہم نہ کریں کہ وہ مالک کے چنگل سے نکل کر بھاگ جاءے۔ مگر آج کی اخلاقی اقدار کے مقابلے میں چودہ سو سال پہلے کی اخلاقی اقدار کچھ اور تھیں۔ اس وقت غلام رکھنا اور ان کی تجارت کرنا کوءی ظلم نہ تھا۔ اگر اس وقت غلامی کو ظلم سمجھا جاتا تو یقینا قرآن میں جہاں شراب پینے کی ممانعت کی گءی ہے وہیں غلام بنانے اور رکھنے کو بھی ممنوع قرار دیا جاتا۔ مختصرا یہ کہ قرآن ہدایت کی ایک واضح کتاب نہیں ہے۔ اس بات کا بہت امکان ہے کہ اس میں موجود کسی ہدایت کو میں ایک نظر سے دیکھوں اور آپ کے لیے اس کے معنی کچھ اور ہی ہوں۔ اور اسی وجہ سے مسلمانوں میں بہت سے فرقے ہیں۔ ان سب فرقوں کا قرآن ایک ہے۔ وہ جو تیس سیپاروں پہ مشتمل ہے، سورہ فاتحہ سے شروع ہوتا ہے اور سورہ الناس پہ ختم ہوتا ہے۔ مگر ایک قرآن پہ اتفاق کے باوجود ان لوگوں کے نماز پڑھنے کے طریقے مختلف ہیں اور ان کے نزدیک اسلام کے حساب سے زندگی گزارنے کے معنی بھی جدا ہیں۔ اس بات پہ یقینا شکر ادا کرنا چاہیے کہ مسلمانوں کے سارے فرقے قرآن کی موجودہ ترتیب پہ متفق ہیں حالانکہ نہ قرآن میں یہ بتایا گیا ہے کہ قرآن کو کس طرح ترتیب دیا جاءے اور نہ ہی رسول پاک نے اپنی زندگی میں قرآن کو کسی خاص ترتیب سے پڑھنے کی ہدایت کی تھی۔ واضح رہے کہ قرآن کی موجودہ ترتیب اس کی نزولی ترتیب سے بالکل مختلف ہے؛ موجودہ ترتیب رسول پاک کی وفات کے بعد بننا شروع ہوءی اور تیسرے خلیفہ راشد حضرت عثمان ابن عفان کے دور حکومت میں اس حتمی شکل میں پہنچی جس شکل میں آج ہم اسے پڑھتے ہیں۔ مختصرا یہ کہ قرآنی احکامات کی عمومی نوعیت کو جانتے ہوءے آپ یہ بات اچھی طرح سمجھ  سکتے ہیں کہ رسول اللہ کی وفات کے بعد اور خاص طور سے احکامت شریعت سے متعلق مختلف اماموں کی منفرد تشریحات کے بعد دنیا میں کوءی غیر متنازعہ اسلامی ریاست قاءم نہیں ہوسکتی۔ رسول اللہ کی  زندگی میں تو یہ سہولت موجود تھی کہ آپ ان سے کسی بھی اسلامی حکم کی تفصیل معلوم کر سکتے تھے مگر ان کی وفات کے بعد یہ آسانی ختم ہوگءی۔ اب ہر فرقہ اپنی جگہ اپنے آپ کو بالکل ٹھیک خیال کرتا ہے۔ چنانچہ آج ہر شخص جو کہہ رہا ہے کہ وہ 'اسلامی نظام' چاہتا ہے دراصل اپنی مرضی کا یا اپنے مسلک کے حساب سے اسلامی نظام چاہتا ہے۔ دوسرے فرقوں کے لوگ بھلا ایک خاص مسلک کے حساب سے بناءی گءی "اسلامی" ریاست میں کیوں رہنا چاہیں گے؟
آج پاکستان میں بہت سے لوگ سوال کرتے ہیں کہ وہاں موجود مذہبی شدت پسندی کو کیسے ختم کیا جاءے۔ لوگوں میں ایک دوسرے کے لیے برداشت کیسے پیدا ہو؟ جواب بہت مشکل نہیں ہے۔ ہمیں تاریخی طور پہ دیکھنا ہو گا کہ ملک کی سمت کب تبدیل ہونا شروع ہوءی اور ریاست مذہبی معاملات میں کب کودی۔ پاکستان کو اسلام سے نتھی کرنے کا کام محمد علی جناح کی وفات کے بعد قرارداد مقاصد سے شروع ہوا۔ معاملات بتدریج خراب ہوتے گءے۔ بات اور آگے بڑھی اور ریاست لوگوں کے سچے اور جھوٹے مسلمان ہونے کے متعلق فیصلے کرنے لگی۔ ریاست کا نام بھی تبدیل ہوکر اسلامی جمہوریہ پاکستان ہوگیا۔ پھر ریاست اس جھگڑے میں پھنسی کہ کن باتوں سے کس کے مذہبی جذبات مجروح ہوتے ہیں۔ اب یہ عالم ہے کہ بہت سے لوگوں کی خواہش ہے کہ ملک اس طرح کی یا اس طرح کی "اسلامی ریاست" بن جاءے۔ اس کے مقابلے میں خاموش اکثریت وہ ہے جو اچھی طرح سمجھتی ہے کہ رسول اللہ کی وفات کے بعد کوءی ریاست غیرمتنازعہ 'اسلامی ریاست' نہیں بن سکتی۔ اس لیے اس سراب کے پیچھے بھاگنا فضول ہے۔ پاکستان میں ریاست کو مذہب سے الگ کرنا ہوگا اور ملک کو اسلامی جمہوریہ پاکستان سے صرف جمہوریہ پاکستان بنانا ہوگا۔



 

سان فرانسسکو بے ایریا میں اردو اکادمی کی ماہانہ نشست کیوں بند ہورہی ہے؟

سان فرانسسکو بے ایریا میں اردو اکادمی کی ماہانہ نشست کیوں بند ہورہی ہے؟

اب تک سان فرانسسکو بے ایریا میں اردو ادب کے شاءقین کے لیے اردو ادبی محفلوں میں شرکت کے دو راستے تھے۔ ایک وہ سہ ماہی یا چہار ماہی اردو محفل جو حمیدہ بانو چوپڑہ صاحبہ انڈیا کمیونٹی سینٹر میں باقاعدگی سے منعقد کراتی ہیں اور دوسری وہ ماہانہ ادبی نشستیں جن کا اہتمام اردو اکادمی کرتی ہے۔ اردو اکادمی کی محافل چاندنی ریستوراں میں منعقد کی جاتی ہیں۔ اردو اکامی کا انتظام تاشی ظہیر، خالد رانا، ڈاکٹر طاہر محمود، احمر شہوار، اور دوسرے ساتھی چلاتے ہیں۔ ان دونوں محافل میں یعنی انڈیا کمیونٹی سینٹر میں منعقد کی جانے والی محافل اور اردو اکادمی کی ماہانہ نشستوں میں شرکت کا کوءی ٹکٹ نہیں ہوتا۔ حاضرین سے کسی قسم کی رقم وصول نہ کرنے کے باوجود یہ محافل باقاعدگی سے ہوتی ہیں اور ان میں مہمانوں کی خاطر چاءے سموسے وغیرہ سے کی جاتی ہے۔ آپ پوچھ سکتے ہیں کہ ان محافل کے اخراجات کیسے نکلتے ہیں۔ جواب آسان ہے۔ انڈیا کمیونٹی سینٹر کی اردو ادبی محافل کو اشرف حبیب اللہ صاحب کی مالی سرپرستی حاصل ہے۔ اشرف حبیب اللہ ایک کامیاب انجینءیرنگ  کمپنی کے مالک ہونے کے ساتھ فنون لطیفہ کے دلدادہ بھی ہیں۔ وہ اپنی خوشی سے انڈیا کمیونٹی سینٹر میں منعقد کی جانے والی ہر اردو محفل کے اخراجات برداشت کرتے ہیں۔ یہ اخراجات قریبا ڈھاءی سے تین ہزار ڈالر فی محفل ہوتے ہیں۔ چنانچہ بھاگ دوڑ اور مواد کی تیاری کی محنت حمیدہ بانو صاحبہ اور انل چوپڑہ صاحب کی ہوتی ہے اور پیسہ اشرف حبیب اللہ صاحب کا لگتا ہے۔ ہر محفل میں ڈیڑھ سو سے ڈھاءی سو لوگ شریک ہوتے ہیں، اچھی شاعری سن کر، سموسے کھا اور چاءے پی کر چلے جاتے ہیں۔ اکا دکا ہی ہوتے ہیں جو ہمدردی میں حمیدہ بانو صاحبہ سے پوچھتے ہیں کہ آخر یہ محافل کب تک اشرف حبیب اللہ کا احسان لیتی رہیں گی اور اخراجات پورا کرنے کے لیے کیا کیا جاسکتا ہے۔  انڈیا کمیونٹی سینٹر کی اردو محافل کے مقابلے میں اردو اکادمی کی محافل کو کسی ایک متمول شخص کی سرپرستی حاصل نہیں ہے۔ بہت عرصے تک تو تاشی ظہیر صاحب، خالد رانا صاحب اور ان کے دوسرے ساتھی اپنی جیب سے ان محافل کے اخراجات پورے کرتے رہے۔ پھر یہ محافل چاندنی ریستوراں میں منعقد کی جانے لگیں۔ وہاں ان محافل کو چاندنی ریستوراں کے مالک سید ثروت صاحب کی سرپرستی حاصل رہی۔ بیٹھنے کا انتظام بھی مفت تھا اور چاءے سموسے بھی ثروت صاحب کی مہربانی سے میسر تھے مگر اردو اکادمی کے منتظمین کے ذہنوں میں شروع سے یہ بات واضح تھی کہ ثروت صاحب کے اس احسان سے جلد از جلد نکل آنا ہے۔ اردو اکادمی کو اپنے پاءوں پہ یوں کھڑا کردینا ہے کہ اس میں باقاعدگی سے شرکت کرنے والے لوگ ماہانہ یا سالانہ چندہ دیں اور اس آمدنی سے چاندنی ریستوراں کو ماہانہ نشست کے اخراجات کی رقم دی جا سکے۔ مگر اب تک ایسا نہ ہو پایا ہے۔ گنتی کے تین یا چار لوگ اردو اکادمی کو باقاعدگی سے چندہ دیتے ہیں۔ ہر دفعہ قریبا سو لوگ اردو اکادمی کی محفل میں شرکت کرتے ہیں، اچھا اردو ادب سنتے ہیں اور چاءے سموسے سے استفادہ کر کے چلے جاتے ہیں۔ اس صورت میں اردو اکادمی کے منتظمین سید ثروت صاحب کا احسان براہ راست اپنے اوپر محسوس کرتے ہیں۔  یہ منتظمین اب اس صورت سے اردو اکادمی چلانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اگر لوگوں کا خیال ہے کہ اردو اکادمی کی ماہانہ نشست جاری رہنی چاہیے تو وہ آگے بڑھ کر اخراجات کا حساب کریں، مل کر رقم جمع کریں، اور اردو اکادمی کا مالی انتظام سنبھالیں۔

Labels: , , ,


Monday, February 18, 2013

 

ہزارہ کے نام ایک کھلا خط




فروری اٹھارہ، دو ہزار تیرہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار ایک سو پچیس


ہزارہ کے نام ایک کھلا خط

  
اے کوءٹہ کے ہزارہ لوگو، آپ کو ایک عرصے سے ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ سالوں سے یوں ہوتا ہے کہ موٹرساءیکل پہ سوار دو مسلح افراد آتے ہیں اور آپ میں سے چند افراد کو موت کے گھاٹ اتار کر اطمینان سے فرار ہوجاتے ہیں۔ جب ان ظالموں کی پیاس ایک دو قتل سے نہیں بجھتی تو یہ دھماکہ خیز مواد کا پورا ٹرک آپ کے محلے میں لاتے ہیں اور دھماکہ کر کے کبھی درجنوں اور کبھی سینکڑوں لوگوں کو ایک ساتھ موت کی نیند سلا دیتے ہیں۔ قتل و غارت گری کی ہر واردات کے بعد یہ اطمینان سے کسی اخبار، کسی ٹی وی اسٹیشن کو فون کر کے خون ریزی کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔ آپ کے قاتل ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ یہ لشکر جھنگوی، سپاہ صحابہ، جماعت الدعوی جیسی تنظیموں کے لوگ ہیں جو کھل کر کہتے ہیں کہ وہ پاکستان سے شیعہ کا صفایا کرنا چاہتے ہیں۔ ان تنظیموں کے کارکنوں کو اگر کبھی پکڑ بھی لیا جاتا ہے تو کچھ ہی دنوں میں یہ چھٹ جاتے ہیں اور پہلے سے زیادہ سفاکی سے آپ پہ حملے کرتے ہیں۔
اس ظلم و ستم کے جواب میں آپ انصاف مانگنے کا ہر وہ طریقہ اپنا چکے ہیں جو مہذب لوگ اپنا سکتے ہیں۔ آپ نے صدر پاکستان، وزیر اعظم، چیف جسٹس، جواءنٹ چیف آف آرمی اسٹاف سمیت پاکستان کے تمام باثر لوگوں کو خط لکھے اور ان سے مدد کی درخواست کی۔ ان درخواستوں سے آپ کے حالات میں کیا تبدیلی آءی؟  کچھ نہیں۔ آپ نے ہر قتل کے بعد مظاہرے کیے، دھرنے دیے۔ آپ کی حمایت میں پاکستان کے کءی شہروں میں اور مغربی دنیا کے کءی شہروں میں بھی احتجاجی مظاہرے ہوءے۔  ان مظاہروں سے، ان دھرنوں سے آپ کو کیا ملا؟  کچھ نہیں۔ جنوری دس کے جڑواں دھماکوں کے بعد آپ اپنے سو سے زیادہ پیاروں کی لاشوں کو لے کر شدید سردی میں کوءٹہ کی سڑکوں پہ کءی دن بیٹھے رہے؛ آپ کا مطالبہ تھا کہ نااہل صوباءی حکومت کو چلتا کیا جاءے۔ اپنی معصومیت میں آپ کا خیال تھا کہ صوباءی حکومت کے ہٹتے ہی آپ کے دن پھر جاءیں گے۔ آپ کے مطالبے کی حمایت میں پورے پاکستان میں مظاہرے ہوءے۔ اسلم رءیسانی کی نام نہاد صوباءی حکومت کی چھٹی کر دی گءی اور بلوچستان میں گورنر راج قاءم ہوگیا۔ مگر اس گورنر راج سے آپ کو کیا ملا؟ کچھ نہیں۔ کیا گورنر راج سے آپ پہ ہونے والے حملے بند ہوگءے؟ ہرگز نہیں۔ اس کے برعکس فروری سولہ کے روز آپ پہ جنوری دس کے حملے کے مقابلے میں زیادہ بڑے دھماکہ خیر مواد کے ساتھ حملہ کیا گیا۔ آپ ایک دفعہ پھر احتجاج کر رہے ہیں۔ ایک دفعہ پھر آپ اپنے پیاروں کی لاشوں کو لیے سڑکوں پہ بیٹھے ہیں۔ آپ کا کہنا ہے کہ آپ مرنے والوں کو اس وقت تک نہیں دفناءیں گے جب تک کہ کوءٹہ پاکستانی فوج کے حوالے نہیں کر دیا جاتا۔ یہ مطالبہ اچھا ہے اور اس طرح آءندہ ہونے والی کسی دہشت گردی کی واردات کی ذمہ داری پوری طور پہ پاکستانی فوج پہ ہوگی۔ مگر آپ ہرگز یہ نہ سمجھیں کہ کوءٹہ فوج کے زیرانتظام آنے کے بعد آپ کی زندگیوں میں سکون آجاءے گا۔ اس وقت بھی بلوچستان عملی طور پہ فوج کی تحویل میں ہی ہے۔ اس انتظام سے آپ کو کیا مل رہا ہے؟ کچھ نہیں۔ اور اسی طرح کراچی، لاہور، اسلام آباد، اور دنیا بھر میں موجود اپنے حامیوں کی ہمدردیوں سے؛ یا فلانا سیاست داں کے مذمت کے بیان سے اور ڈھمکانا خان کی پریس کانفرینس سے بھی آپ کو کچھ نہیں ملنے والا۔
وقت آپ سے کچھ اور تقاضہ کر رہا ہے۔ اور وہ تقاضہ یہ ہے کہ آپ پہلی فرصت میں ملک و حکومت و فوج پہ اپنا اعتماد بالکل ختم کردیں۔ یا تو یہ لوگ بالکل نااہل ہیں یا دراصل یہ خود ہی آپ کے دشمنوں سے ملے ہوءے ہیں۔ ان سے دادرسی بالکل بیکار ہے۔ جہاں اس تازہ ترین دھماکے نے سینکڑوں لوگوں کی جانیں لی ہیں وہیں دھماکے کی آواز نے ملک کی تباہی اور آپ کی آزادی کا اعلان کر دیا ہے۔ کسی بھی ریاست کا سب سے بنیادی مقصد ریاست کے اندر رہنے والے لوگوں کی حفاظت کو یقینی بنانا ہے۔ جو ریاست اس سب سے بنیادی مقصد میں ناکام ہے وہ دراصل اپنے وجود کا حق کھو چکی ہے۔ آپ کی حفاظت میں واضح اور مسلسل ریاستی ناکامی کے بعد اب آپ ایک آزاد قوم ہیں۔ آپ آزاد قوم کی طرح سوچیں اور اپنے تمام انتظامات خود کریں-  شکستہ سیاسی و ملکی ڈھانچے پہ انحصار کرنا چھوڑ دیں۔ وہاں سے آپ کو سواءے ناامیدی کے کچھ نہیں ملے گا۔ اور اپنی اس نءی آزادی کو آپ ریاست سے بغاوت ہرگز خیال نہ کریں۔ آپ کے دشمن ریاست کے ہر قانون کو توڑتے ہوءے اپنی بغاوت کا اعلان بہت پہلے کر چکے ہیں۔ پھر آپ کو شکستہ خوردہ سیاسی نظام سے وفادار رہنے کی کیا ضرورت ہے؟
اب اپنے لوگوں کے لیے آپ کو وہ سارے کام خود کرنے ہیں جو کوءی بھی مہذب حکومت و ریاست کرتی ہے۔ ان کاموں میں اولین کام اپنے لوگوں کی حفاظت ہے۔
آپ اپنے لوگوں میں سے ایک جماعت چنیں جو ہزارہ افراد کی بہبود کا کام کرے۔ آپ کو محنت سے، رقم خرچ کر کے، اپنے علاقے کے گرد چہاردیواری کھینچ کر، جگہ جگہ کمیرے لگا کر، فاصلے فاصلے سے چوکیاں بنا کر اپنی حفاظت کو یقینی بنانا ہے۔ آپ کو اپنے لوگوں میں سے چن کر اپنے علاقے میں پولیس کا انتظام کرنا ہے۔ آپ کو اس طرح سے قلعہ بند ہو کر رہنا ہے کہ آپ کے علاقے میں آپ کی مرضی کے بغیر نہ کوءی گاڑی آسکے اور نہ کوءی فرد۔  آپ کو اپنے ہم خیال شیعہ اور سنی گروہوں سے رابطے بڑھانے ہیں تاکہ ان رابطوں سے آپ اپنے دشمنوں کے گروہوں کے اندر تک پہنچ سکیں اور اپنے خلاف ہونے والی کسی سازش کو پہلے ہی دریافت کر لیں۔ یہ کام مشکل ہے مگر کسی بھی ناکام ریاست میں صرف ان لوگوں کو جینے کا حق ملتا ہے جو ہر مشکل سے گزرتے ہوءے اپنے جینے کا سامان کرتے ہیں۔
 قصہ مختصر اب تنگ آمد، بجنگ آمد کی صورتحال ہے۔ مستقل کیڑے مکوڑوں کی طرح مارے جانے سے بہتر ہے کہ اپنے لوگوں، اپنے علاقے کا انتظام آپ خود سنبھالیں اور اپنی گردن کی طرف بڑھنے والے ہر ہاتھ کو کاٹ دینے کی طاقت پیدا کریں۔




Wednesday, February 13, 2013

 

بنانا ایٹم بم اور کھانا گھاس



فروری گیارہ، دو ہزار تیرہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار ایک سو چوبیس

  

 بنانا ایٹم بم اور کھانا گھاس



میں نے اب تک بریگیڈیر فیروز حسن خان کی کتاب "ایٹنگ گراس" [گھاس کھانا] نہیں پڑھی ہے۔ کل اس کتاب کی تقریب رونماءی فریمونٹ کے ہوٹل میریاٹ میں ہوءی تھی۔ اس محفل کا انتظام صباحت رفیق اور نوید شیروانی نے کیا تھا۔ 
فیروز حسن خان کی کتاب پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر ہے اور اس موضوع پہ یہ ایک کتاب گراں قدر اضافہ ہے کیونکہ پاکستان کے جوہری پروگرام پہ لکھی بیشتر کتابیں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے حوالے سے ہیں۔ یہ کتابیں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو کچھ ایسے بگاڑ کر پیش کرتی ہیں کہ معلوم ہوتا ہے کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان ایک لالچی ساءنسدان ہیں جنہوں نے ایٹمی راز مغرب سے چراءے، ان کی مدد سے پاکستان کے لیے ایٹم بم بنایا، اور پھر اس ٹیکنالوجی کو دوسرے ملکوں کو بیچ کر کماءی کرنا شروع کردی۔  کل کی تقریب میں ڈیڑھ سو کے قریب لوگ شریک ہوءے تھے۔ کافی دیر استقبالیے کا دور چلا جس میں لوگ سموسے اور بولانی کھاتے رہے اور فیروز حسن خان صاحب لوگوں کی خریدی گءی کتابوں کو اپنے دستخط سے سنوارتے رہے۔ کتاب کی تقریب رونماءی کی نظامت صباحت رفیق صاحبہ نے کی۔ انہوں نے 'ایٹنگ گراس' کا ایک جامع تعارف پیش کیا اور صاحب کتاب کا تعارف بھی کرایا۔ فیروز حسن خان صاحب نے اپنی تقریر میں بتایا کہ اس کتاب کی تصنیف کا خیال انہیں اس وقت آیا جب ایک موقع پہ انہوں نے پرویز مشرف سے سوال کیا کہ پرویز مشرف کی زندگی میں سب سے مشکل دور کونسا تھا۔ اس وقت پرویز مشرف پاکستان کی باگ ڈور سنبھالے ہوءے تھے۔  پرویز مشرف کی آسانی کے لیے فیروز خان نے مشرف کے سامنے آنے والے پانچ مشکل مرحلوں کی نشاندہی پہلے ہی کردی۔ یہ پانچ مراحل تھے: کارگل کی جنگ، سنہ اٹھانوے کی فوجی بغاوت، نوگیارہ کا واقعہ اور اس سے متعلق پاکستان پہ امریکی دباءو، سنہ دو ہزار دو میں ہندوستان کا اپنی بیشتر فوج پاکستان کی سرحد پہ لگادینا، اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے متعلق سامنے آنے والا اسکینڈل۔ فیروز خان کا کہنا تھا کہ پرویز مشرف نے فورا جواب دیا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا اسکینڈل ان کی زندگی کا سب سے مشکل دور تھا۔ فیروز خان نے اسی وقت فیصلہ کیا کہ پاکستان کے جوہری پروگرام پہ ایک ایسی کتاب لکھنی چاہیے جو تمام واقعات کا احاطہ کرے اور پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو بالکل شروع سے موجودہ دور تک بیان کرے۔ اپنی تقریر میں فیروز خان نے اعتراف کیا کہ ان کی کتاب میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے اسکینڈل کو خاص جگہ نہیں دے گءی ہے۔ فیروز خان کے مطابق اس موضوع پہ پہلے ہی کءی کتابیں لکھی جا چکی ہیں اس لیے انہوں نے اس پہ اور کچھ لکھنا اور اپنی کتاب میں شامل کرنا ضروری محسوس نہیں کیا۔ فیروز حسن خان نے بتایا کہ پاکستان کا جوہری پروگرام سنہ ترانوے میں فوج کے حوالے کیا گیا تھا اور اس وقت سے فیروز خان اس پروگرام سے وابستہ رہے۔ فیروز حسن خان کی تقریر کے بعد سوال و جواب کا دور شروع ہوا۔ سوال و جواب کے مرحلے میں ڈاکٹر سید رفعت حسین صاحب کی موجودگی سے بھی استفادہ کیا گیا۔ رفعت حسین پاکستان کے مایہ ناز سیکیورٹی ایکسپرٹ ہیں اور اس وقت جامعہ اسٹینفرڈ میں وزیٹنگ پروفیسر کی حیثیت سے فراءض انجام دے رہے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں فیروز خان نے اعتراف کیا کہ پاکستان نے سنہ اٹھانوے میں کیے جانے والے ایٹمی دھماکوں کا صحیح فاءدہ نہیں اٹھایا۔ ایٹمی ہتھیاروں کی موجودگی نے پاکستان کے دفاع کو ناتسخیر بنا دیا تھا۔ اس صورت میں پاکستان کو چاہیے تھا کہ وہ دفاع سے قریبا بے فکر ہو کر اپنی معاشی ترقی پہ بھرپو توجہ دیتا۔ مگر ایسا نہیں کیا گیا اور اس وقت پاکستان اندر سے ایک نہایت کمزور ریاست ہے۔ فیروز خان کا کہنا تھا کہ ایک تعداد کے بعد مزید ایٹمی ہتھیار بنانا بے وقوفی ہے کیونکہ ایٹمی ہتھیاروں کو سنبھال کر رکھنے پہ بڑی رقم خرچی ہوتی ہے اور زیادہ بڑی تعداد میں موجود ایٹمی ہتھیاروں کو سنبھا کر رکھنا نہایت مہنگا عمل ہے۔ فیروز خان کا کہنا تھا کہ سنہ اٹھانوے میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کا پاکستانی فوج پہ دباءو تھا کہ پاکستانی فوج براہ راست ان سمندر پار پاکستانیوں سے عطیات وصول کرے اور ان عطیات کی مدد سے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو آگے بڑھاءے۔ ان لوگوں کو پاکستان کی سویلین حکومت سے زیادہ پاکستانی فوج پہ اعتماد تھا۔  فیروز خان کے مطابق فوج نے یہ پیشکش ٹھکرادی اور کہا کہ عطیات جمع کرنے کا کام سویلین حکومت کا ہے۔ اسی وقت سویلین حکومت نے ڈالر اثاثے مجنمد کیے جس کی وجہ سے زرمبادلہ ملک کے اندر آنے کے بجاءے باہر جانے لگا۔ فیروز خان کا کہنا تھا کہ اس کی برعکس صورتحال ہندوستان میں تھی جہاں ملک سے باہر رہنے والے ہندوستانیوں کو اپنی حکومت پہ اعتماد تھا اور انہوں نے اپنے ملک کے ایٹمی پروگرام کی مدد کی نیت سے عطیات ہندوستان بھیجے۔

Labels: , , , , ,


Tuesday, February 05, 2013

 

اداس ہونے کے دن



فروری چار، دو ہزار تیرہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار ایک سو تءیس




 اداس ہونے کے دن



معروف شاعرہ نوشی گیلانی کی ایک کتاب 'اداس ہونے کے دن نہیں ہیں' کے عنوان سے ہے۔ مجھے اس کتاب کا عنوان اچھا لگتا ہے کہ میں سمجھتا ہوں کہ اس مختصر سی زندگی میں اداسی میں وقت کھونے کا کیا فاءدہ؟ اور اسی وجہ سے میں بہت محنت سے خوشیاں جھور کر رکھتا ہوں۔ بڑے بڑے ڈگ بھرتا ساتویں آسمان پہ چلتا رہتا ہوں۔  صبح چھلانگ مار کر بستر سے نکلتا ہوں اور اپنے من پسند کاموں میں جٹ جاتا ہوں۔ نوکری نہیں کرتا کہ میں کسی نوکری میں خوش نہیں رہ سکتا۔  غرض کہ پوری کوشش سے مختصر حاجات والی ایسی زندگی گزارتا ہوں جس میں زیادہ سے زیادہ خوش رہ سکوں۔ مگر کیا کیجیے کہ کبھی کبھی کراچی کا کوءی اخبار آءن لاءن پڑھ لیتا ہوں۔ اگر یہاں امریکہ میں رہتے ہوءے آپ کو پانی اور بجلی کی فراہمی میں کوءی دقت نہ ہو، ٹریفک کے تمیز سے چلنے پہ آپ خوش ہوں، اور یہ سمجھ کر بھی خوش ہوں کہ اس ملک میں جو سیاسی اکھاڑ پچھاڑ ہوتی رہتی ہے اس میں تشدد کا کوءی دخل نہیں ہے، مگر چاہیں کہ غم کی ماری دنیا کی طرف بھی ایک نظر کر لیں تو بس تھوڑی دیر کے لیے پاکستان کا کوءی اخبار پڑھ لیں۔ ذرا سی دیر میں غموں کی بوچھاڑ برچھیوں کی تیز انیوں کی طرح آپ کی روح میں پیوست ہو جاءے گی۔  دو دن پہلے جنگ کراچی میں یہ خبر پڑھی۔
کراچی میں فاءرنگ کے مختلف واقعات میں چار افراد ہلاک ہوگءے۔ تفصیلات کے مطابق پاکستان بازار تھانے کی حدود اورنگی ٹاءون سیکٹر ساڑھے گیارہ رحمت چوک کے قریب نامعلوم ملزمان کی فاءرنگ سے ۳۵ سالہ نیر شہاب ولد شہاب الدین ہلاک ہوگیا۔ پولیس کے مطابق مقتول اپنی بیٹی کو اسکول چھوڑ کر واپس گھر جارہا تھا جب اسے فاءرنگ کا نشانہ بنایا گیا۔
یہ خبر پڑھ کر میرا دل ٹوٹ گیا۔ میں سارا دن ایک معصوم بچی کے چہرے کو اپنے ذہن سے نہ ہٹا پایا جو اسکول میں یہ جانے بغیر پڑھ رہی تھی کہ اس کے باپ پہ گولیاں برساءی گءیں ہیں۔ نیر شہاب کو نہ جانے کتنی گولیاں ماری گءیں؟ نہ جانے نیر شہاب زخموں سے تیزی سے خون بہنے کی وجہ سے جاءے واردات پہ ہی مر گیا یا اسے زخمی حالت میں اسپتال لے جایا گیا اور اس نے اسپتال جا کر دم توڑا؟ نیر شہاب اپنی بچی کے اسکول سے کتنے فاصلے پہ تھا جب اسے مارا گیا؟ کیا فاءرنگ کی آواز اسکول میں سنی گءی؟  کیا فاءرنگ کی آواز سن کر استانیوں نے جلدی سے کمروں کے دروازے بند کر لیے اور بچے بچیوں کو کلاس سے باہر جانے سے روکا؟ کیا استانیوں نے سرگوشیوں میں ایک دوسرے سے کہا کہ 'اللہ خیر کرے، نہ جانے کون ان گولیوں کا نشانہ بنا ہے؟' وہ جو ساحر نے حاکم وقت سے سوال کیا تھا کہ،' یہ کس کا لہو ہے، کون مرا؟'  پھر نیر شہاب کی بچی کو یہ کب بتایا گیا ہوگا کہ تھوڑی دیر پہلے جو فاءرنگ ہوءی تھی اس میں تمھارا باپ مارا گیا ہے؟ اور اب اس بچی کا کیا بنے گا؟ وہ چھوٹی سی بچی اتنا بڑا غم کیسے برداشت کرے گی؟ اور اس بچی کو سمجھانے والے لوگ کن الفاظ میں بچی کو سمجھاءیں گے کہ اس کے باپ کو کیوں مارا گیا؟
کوءی ہے جو ان گھروں میں جا کر پیچھے رہ جانے والوں کا حال احوال معلوم کرے، جن گھروں کے کفیل کو بے دردی سے ہلاک کر دیا گیا ہے؟  پھر ٹارگٹ کلنگ کے نہ تھمنے والے واقعات کے ساتھ ساتھ بم دھماکے بھی ہیں۔ ان بم دھماکوں میں ایک ساتھ کتنے ہی خاندانوں کے چراغ گل کر دیے جاتے ہیں۔ کوءی ان کو بھی پوچھنے والا ہے؟ بم دھماکوں کی وارداتوں میں جڑواں دھماکوں کے واقعات سب سے زیادہ موذی ہیں۔ جڑواں دھماکوں میں پہلے ایک نسبتا چھوٹا دھماکہ کیا جاتا ہے۔ جب اس دھماکے کے رد عمل میں مدد کرنے والے لوگ، پولیس کا عملہ، ہنگامی طبی امداد کا عملہ، اور صحافی دھماکے کی جگہ پہ پہنچتے ہیں تو دوسرا بڑا دھماکہ کیا جاتا ہے جس سے بڑی تعداد میں لوگ ہلاک ہوتے ہیں۔  جڑواں دھماکوں کے واقعات نے لوگوں کے دلوں میں یقینا ایسا خوف بھر دیا ہوگا کہ وہ ایک دھماکے کی خبر سن کر جاءے واردات پہ جانے سے گریز کریں گے کہ نہ جانے کتنے وقفے کے بعد ابھی اس جگہ دوسرا دھماکہ بھی ہونا ہے۔  تو ایسی صورت میں پولیس، طبی امداد کا عملہ، اور صحافی کیا کریں؟ کیا پہلے دھماکے میں مرنے والوں اور زخمیوں کو جاءے واردات پہ ہی چھوڑ دیں؟  کراچی میں ٹارگٹ کلنگ اور دہشتگردی کے واقعات جس تواتر سے ہو رہے ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پولیس ناکارہ ہے اور مجرم بے خوف۔ دنیا بھر میں ایسا ہوتا ہے کہ ہر جرم کی واردات اپنے پیچھے بہت سارے اشارے اور نشانیاں چھوڑ جاتی ہے۔ ان نشانیوں کی مدد سے اگر مجرم تک نہ بھی پہنچا جاءے تو کم ازکم ایسے اقدامات ضرور کیے جاتے ہیں کہ آءندہ اس جیسی واردات ہونا مشکل ہو جاءے۔ مگر کراچی میں ایسا نہیں ہے۔ یہاں تواتر سے بالکل ایک طرح کی وارداتیں ہوتی ہیں اور کوءی نہیں پکڑا جاتا۔ تو پھر ایسے میں کیا کیا جاءے؟  ایسی صورت میں کہ جب حکومت امن عامہ قاءم رکھنے میں ناکام ہوچکی ہے شہریوں کو چاہیے کہ وہ اپنی حفاظت کا انتظام خود کریں۔ اور حفاظت کا یہ انتظام انفرادی طور پہ نہ ہو بلکہ محلے کی سطح پہ ہو۔ جہاں اور اخراجات کرتے ہیں وہاں سرویلینس کیمروں پہ بھی رقم خرچ کریں۔ قاتلوں کا چہرہ کھل کر سامنے آجاءے۔ پہلے مرحلے میں اتنا تو ہو؛ اتنا کرنا  تو شہریوں کے بس میں ہے۔ قاتلوں کو پکڑنے کا اور انہیں سزا دینے کا مرحلہ پھر آگے آءے گا۔

Labels:


This page is powered by Blogger. Isn't yours?