Thursday, May 24, 2012

 

انگریزی اصطلاحات کا اردو ترجمہ بشکریہ علیم احمد








انگریزی اصطلاحات کا اردو ترجمہ
   
اس وقت کءی محاذوں پہ ترجمے کا کام جاری ہے۔ ترجمے کا یہ کام انگریزی سے اردو میں ہو رہا ہے اور اس کام میں اکثر ایسی اصطلاحات سے واسطہ پڑتا ہے جن کے اردو متبادل الفاظ کی تلاش ہوتی ہے۔ اصطلاحات کے ترجمے کا کام ایک خاص قابلیت مانگتا ہے جو پاکستان کے نامور ساءنسی صحافی علیم احمد میں کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔
درج ذیل پیغامات سے آپ کو علیم احمد کی عالمانہ اوصاف کا بخوبی اندازہ ہوگا۔
[یاد رہے کہ علیم احمد گلوبل ساءنس نامی رسالے کے مدیر ہیں۔]
سمندطور
  

-----------------------------------------------------------------------------------------------------------

نوازش، بھاءی علیم۔
دل خوش ہو گیا۔
آپ نے اس قدر تفصیلی جواب دیا ہے کہ دل کرتا ہے کہ اس جواب کی ایک بلاگ پوسٹ بنا کر اپنے بلاگ پہ لگا دوں۔ آپ کو اعتراض تو نہ ہوگا۔
خوش رہیے۔
امید ہے کہ جلد اسکاءپ پہ بات ہوگی۔
نیازمند
سمندطور

-----------------------------------------------------------------------------------------------------------
برادرم علی حسن
السلام علیکم

آپ کے قلم سے اپنے لیے مزدور قلم کی عبارت اچھی لگی۔ اگرچہ ذیل کی یہ اصطلاحات میں نے اپنے اسکول کے زمانے میں پڑھ رکھی ہیں؛ لیکن پھر بھی سند کی غرض سے میں انہیں دو الگ الگ لغات سے دیکھ کر لکھ رہا ہوں۔ ان میں سے پہلی لغت؛ اردو سائنس بورڈ کی فرہنگ اصطلاحات ہے جو محترم اشفاق احمد مرحوم کے زمانے میں ترتیب دی گئی تھی؛ اور دوسری مقتدرہ قومی زبان کی قومی انگریزی اردو لغت ہے جو آج سے بیس سال پہلے محترم ڈاکٹر جمیل جالبی کی سربراہی میں مکمل ہوئی تھی۔ معیار سازی کے نقطہ نگاہ سے یہی دونوں لغات مجھے موزوں ترین لگتی ہیں؛ تاہم بعض مقامات پر کچھ علمی اختلافات بھی سامنے آجاتے ہیں۔

Universal set
افسوس کہ مذکورہ دونوں لغات میں یونیورسل سیٹ کا کوئی براہ راست ترجمہ موجود نہیں۔ تاہم؛ اول الذکر فرہنگ میں یونیورسل کا ترجمہ: کائناتی؛ آفاقی؛ اور ہمہ گیر کے طور پر کیا گیا ہے۔ لہذا آپ یونیورسل سیٹ کی اردو ’’ہمہ گیر سیٹ‘‘ کے طور پر بھی کرسکتے ہیں؛ کیونکہ یہ وہ سیٹ ہوتا ہے جس کے ذیل میں تمام ذیلی سیٹ آجاتے ہیں۔

Complimentary set
لگتا ہے کہ مذکورہ دونوں لغات کی تیاری میں جن لوگوں نے کام لیا ہے؛ یا جن افراد کے کام سے مدد لی گئی ہے؛ انہیں ریاضی سے کوئی خاص رغبت یا نسبت نہیں تھی؛ کیونکہ اس اصطلاح کا بھی براہ راست ترجمہ دونوں لغات میں دستیاب نہیں۔ البتہ؛ کمپلیمنٹری (Complementary) کے ترجمے میں تکملی اور تکمیلی جیسے الفاظ موجود ہیں۔ سیٹ کے ساتھ ملانے پر یہ تکملی سیٹ؛ یا تکمیلی سیٹ بنے گا۔ ویسے میرا خیال ہے کہ تکمیلی زیادہ درست رہے گا کیونکہ ’’انٹیگرل‘‘ (Integral) کو اردو میں پہلے ہی سے ’’تکملہ‘‘ کہتے ہیں۔ ویسے بھی کمپلیمنٹری سیٹ وہ ہوتا ہے جو کسی دوسرے سیٹ کے ساتھ مل کر اپنی اور دوسرے سیٹ؛ دونوں کی ’’تکمیل‘‘ کرتا ہو۔ لہذا اس عاجز کی رائے میں تو تکمیلی سیٹ ہی درست ترجمہ رہے گا۔

symmetrical difference
اردو میں ’’سمٹری‘‘ کا کلاسیکی متبادل ’’تشاکل‘‘ ہے؛ یعنی اگر کوئی شے اپنی ساخت اور خصوصیات کے اعتبار سے یکساں؛ ایک جیسی؛ یا مشابہ ہو تو اسے اردو میں ’’متشاکل‘‘ (symmetric) کہتے ہیں۔ اس اعتبار سے سمٹریکل ڈفرینس کا اردو ترجمہ تشاکلی فرق ہی بنے گا۔ (مبارک ہو! اس اصطلاح کا بھی اردو ترجمہ مذکورہ دونوں لغات میں براہ راست موجود نہیں)۔

Associate property
برادرم؛ ذرا یہ اصطلاح چیک کرلیجیے گا۔ اسے Associate نہیں بلکہ Associative ہونا چاہئے۔ ویسے تو ایسوسی ایٹ کو اردو میں ’’نائب‘‘ کہتے ہیں؛ جیسے کہ ایسوسی ایٹ پروفیسر کے لیے اردو لفظ ’’نائب پروفیسر‘‘ عرصہ دراز سے موجود ہے۔ (یاد رہے کہ اسسٹنٹ کا اردو ترجمہ ’’معاون‘‘ ہے؛ لہذا اسسٹنٹ پروفیسر کو اردو میں ’’معاون پروفیسر‘‘ کہا جائے گا۔) البتہ؛ ایسوسی ایٹ سے مراد وہ اشیاء بھی ہوتی ہیں جو ایک دوسرے سے وابستہ ہوں۔ یعنی ’’ایسوسی ایٹ‘‘ پراپرٹی کا اردو ترجمہ وابستہ خاصیت؛ اور ’’ایسوسی ایٹیو پراپرٹی‘‘ کا ترجمہ خاصیت وابستگی ہونا چاہئے۔

Commutative property
فرہنگ سائنسی اصطلاحات میں اس کا ترجمہ خاصیت مبادلہ (یعنی ترتیب کے اعتبار سے ایک دوسرے کی جگہ لے سکنے کی خاصیت) کیا گیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ یہی درست اصطلاح ہے اور اسی طرح اختیار کرلینی چاہئے۔

distributive property
اس اصطلاح کا براہ راست اردو ترجمہ دونوں لغات سے نہیں مل پایا۔ البتہ؛ ڈسٹری بیوٹیو کے ترجمے میں ’’تقسیمی‘‘ کی اردو عبارت ضرور موجود ہے۔ لہذا؛ ڈسٹری بیوٹیو پراپرٹی کی اردو تقسیمی خاصیت ہونی چاہئے۔

ordered pair
ارے! یہ تو بہت ہی آسان ہے: آرڈر کہتے ہیں ترتیب کو اور آرڈرڈ سے مراد ہوتی ہے ’’ترتیب دیا ہوا‘‘ یعنی ’’مترتب‘‘۔ لہذا؛ آرڈرڈ پیئر کا اردو ترجمہ بلاشبہ مترتب جوڑا ہی ہونا چاہئے۔ البتہ؛ مقتدرہ کی لغت میں اس کی اردو مرتب جفت لکھی ہے جبکہ فرہنگ میں آرڈرڈ کا ترجمہ ’’منظم‘‘ درج ہے۔ میرا خیال ہے کہ ان دونوں لغات کو مدنظر رکھتے ہوئے بہتر اور سہل ترجمہ منظم جوڑا کیا جاسکتا ہے۔ بتاتا چلوں کہ تکنیکی اعتبار سے یہ اردو اصطلاح غلط ہوگی کیونکہ لفظ ’’جوڑا‘‘ ہندی سے آیا ہے جبکہ منظم کا تعلق عربی سے ہے۔ یعنی؛ لسانی نقطہ نگاہ سے مرتب جفت یا مترتب جفت درست ہوگی۔ لیکن یہاں ہم نئی نسل کو سامنے رکھتے ہوئے تھوڑی سی نرمی برت سکتے ہیں اور آرڈرڈ پیئر کا اردو ترجمہ منظم جوڑا کرسکتے ہیں۔

cartesian coordinates
یہ ایک اور اصطلاح ہے جو ہم نے اسکول اور کالج کے دنوں میں بہت پڑھی ہے۔ انگریزی کے ’’کارٹیسیئن‘‘ کا باضابطہ اردو ترجمہ ’’کارتیسی‘‘ کے طور پر کیا گیا ہے جبکہ ’’کوآرڈی نیٹس‘‘ کو اردو میں ’’محددات‘‘ کہا جاتا ہے۔ یعنی کارٹیسیئن کوآرڈی نیٹس؛ اردو میں
 کارتیسی محددات کہلائیں گے۔ فرہنگ میں کارٹیسیئن کی اردو ’’کارٹسی‘‘ لکھی ہے جو نمایاں طور پر ناقص ہے۔ البتہ؛ مقتدرہ کی لغت میں کارٹیسیئن کوآرڈی نیٹس کے لئے ’’کارتیسی محدّد‘‘ کی اصطلاح ہی استعمال ہوئی ہے۔ البتہ؛ ہم نے اپنی اردو میڈیم والی نصابی کتب میں اسے ’’کارتیسی محددات‘‘ ہی پڑھا ہے۔

one to one correspondence
لیجئے جناب! اس اصطلاح کے سامنے فرہنگ اور لغت؛ دونوں ہی ناکام ہوگئیں۔ ون ٹو ون کورسپونڈینس سے مراد دو سیٹوں (sets) کا ایسا باہمی تعلق ہوتا ہے کہ جب پہلے سیٹ کا ایک رکن؛ دوسرے سیٹ کے صرف اور صرف ایک ہی رکن سے تعلق رکھتا ہو۔ ایسا خاص طور پر کسی ریاضیاتی تفاعل (فنکشن) کے ضمن میں ہوتا ہے جب ’’ڈومین‘‘ میں دی گئی کسی خاص قدر کے نتیجے میں ’’رینج‘‘ میں صرف ایک قدر ہی ملتی ہے؛ اس سے زیادہ نہیں۔ لغات کھنگالتے کھنگالتے میری نظر سے ’’اصطلاحات ریاضی‘‘ نامی چھوٹی سی کتاب گزری؛ جو مقتدرہ قومی زبان کی ذیلی مجلس اصطلاحات ریاضی؛ کراچی کی مرتب کردہ ہے۔ اس میں ’’ون ٹو ون کورسپونڈینس‘‘ کی اردو ’’ایک ایک تناظر‘‘ دی گئی ہے۔ یہ مجھے کچھ خاص پسند نہیں آئی؛ اسی لئے ’’لسانی اجتہاد‘‘ کرتے ہوئے؛ میں یہ تجویز کرتا ہوں کہ اس کا ترجمہ ایک کا ایک سے تعلق کرلیا جائے۔ اگرچہ یہ کوئی سکہ بند اصطلاح تو نہیں؛ لیکن ون ٹو ون کورسپونڈینس بھی دراصل ایک مخصوص ریاضیاتی تصور کی نمائندگی کرتا ہے۔ بعد ازاں کہیں ’’ون ٹو ون میپنگ‘‘ سے سامنا ہوجائے تو آپ اسے ’’ایک کی ایک پر نقشہ کاری‘‘ بھی کرسکتے ہیں۔

اس مزدور قلم نے اپنے تئیں آپ کی ارسال کردہ اصطلاحات کی خاصی چھان پھٹک کرنے کے بعد متعلقہ اردو آپ کی خدمت میں پیش کی ہے۔ اس عاجز کی یہ کوشش آپ کو جیسی بھی لگی ہو؛ اسکائپ یا ای میل پر رابطہ کرکے ضرور بتائیے گا۔

والسلام
علیم احمد



بھاءی علیم
آداب 
آپ کی مہربانی کا فاءدہ اٹھاتے ہوءے میں اصطلاحات کے ترجمے میں آپ کی مستقل راہنماءی حاصل کرتا رہوں گا۔
درج ذیل انگریزی اصطلاحات مع ناقص اردو ترجمے کے پیش کی جا رہی ہیں۔ 
توثیق کیجیے یا اصلاح فرماءیے۔
ان احسانات کے بوجھ تلے
سمندطور


Cartesian Coordinate System
کارتیسی متناسق نظام





Binary Relation
ثناءی تعلق

Domain
  ساحہ یا میدان

Range
حیطہ یا پہنچ

Function
تفاعل

Onto function
تابع تفاعل

axis
محور

abscissa
استدلال

quadrant
ربع

Decimal fraction
اعشاری کسر


Terminating Decimal fractions
محدود اعشاری کسر

Recurring Decimal fractions
غیرمحدود اعشاری کسر

Additive Identity
جمع اکاءی

Additive Inverse
جمع معکوس یا جمع مقلوب

Multiplication Identity
ضرب اکاءی

Multiplication Inverse
ضرب معکوس یا ضرب مقلوب

Trichotomy property

Reflexive Property
معکوسی خاصیت

Symmetric Property
تشاکلی خاصیت

Transitive Property
متعدی خاصیت

Additive Property
جمعی خاصیت

Multiplicative Property
ضربی خاصیت

Cancellation Property
تنسیخی خاصیت

Exponent
قوت

Products of Powers
قوت کا ضرب

Quotient of Powers
قوت کا تناسب

Radical
اصم

Square Root
جذر

Rational Exponents
نسبتی قوت

Surds
اصم

binomial surds
دو رقمی اصم





Labels: , , , , ,


Thursday, May 17, 2012

 

مقدس کتابیں، نوسٹراڈامس، اور ساءنسی تحقیقات




مءی بیس،  دو ہزار بارہ

مقدس کتابیں، نوسٹراڈامس، اور ساءنسی تحقیقات

نوسٹراڈامس کی پیش گوءیوں کی بات بعد میں ہوگی۔ پہلے اوپن فورم ۲۰۱۲ کا ذکر ہو جاءے۔ اوپن یا  آرگناءزیشن آف پاکستانی آنٹریپرینیورز اینڈ پروفیشنلز آف نارتھ امریکا ایک ایسی تنظیم ہے جو اپنے کام میں اس علاقے یعنی سلیکن ویلی کی روح کے قریب ہے۔ اس علاقے کا طرہ امتیاز یہاں موجود لوگوں کی جدت پسندی ہے، مساءل کا حل تلاش کرنے کی جستجو ہے، کسی بھی کام کو نءے طریقے سے بہتر سے بہتر کرنے کی خواہش ہے۔ اوپن پاکستانی نژاد لوگوں کو اسی سمت میں آگے بڑھنے میں معاونت کرتی ہے۔ اوپن فورم نامی سالانہ پروگرام اوپن کی سب سے ہمہ گیر تقریب ہے جس میں سینکڑوں لوگ شریک ہوتے ہیں اور دن بھر لیکچر اور ورکشاپ کا سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ اوپن فورم میں سیکھنے کے اور نءے نءے لوگوں سے ملنے کے بہت سے مواقع میسر آتے ہیں۔ اسی لیے فورم ایک ایسا سالانہ پروگرام ہے جس میں شرکت نہ کرنا یقینا نقصان کا سودا ہے۔  اگر آپ فورم میں شریک ہونے کا موقع گنواتے ہیں تو آپ کو معلوم بھی نہیں ہوپاتا کہ آپ نے کون کون سے قیمتی مواقع کھو دیے ہیں۔ اوپن فورم ۲۰۱۲ جون دو کے روز کمپیوٹر ہسٹری میوزیم، ماءونٹین ویو میں منعقد ہوگا۔ فورم میں شرکت کے لیے درج ذیل ربط ملاحظہ کیجیے:

اور اب بات کرتے ہیں مقدس کتابوں اور ساءنسی تحقیقات کی۔ مگر پہلے ایک ہلکی پھلکی بات۔ ایک لطیفہ ہے کہ ایک آدمی نے دوسرے سے شرط لگاءی کہ میں تمھارے دل کا حال جانتا ہوں چنانچہ میں جو کچھ بھی کاغذ پہ لکھوں گا تم وہی بات مجھ سے کہو گے۔ یہ کہنے کے بعد پہلے شخص نے ایک کاغذ پہ کچھ لکھ دیا۔ پھر اس شخص نے دوسرے سے کہا کہ اب تم کوءی بات کرو، تم دیکھو گے کہ میں وہی بات پہلے ہی اس کاغذ پہ لکھ چکا ہوں۔ دوسرے شخص کو کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ وہ کیا کہے، اس نے یوں ہی کہہ دیا، "آسمان نیلا ہے۔" اس پہ پہلے شخص نے کاغذ دوسرے کو دکھاتے ہوءے کہا کہ یہ دیکھو مجھے پہلے ہی یہ معلوم تھا کہ تم کہو گے کہ 'آسمان نیلا ہے' اور اسی لیے میں اس کاغذ پہ یہ جملہ لکھ چکا ہوں۔ دوسرے شخص نے کاغذ کو غور سے دیکھا اور پھر غصے سے کہا کہ، 'اس کاغذ پہ میرا کہا ہوا جملہ تو نہیں لکھا ہے۔ اس پہ تو الف سے ے تک تمام حروف تہجی لکھے ہیں۔' پہلے شخص نے مسکراتے ہوءے کہا کہ 'پگلے، ان حروف تہجی کی مدد سے تم وہ جملہ بنا سکتے ہو جو تم نے کہا ہے۔' مجھے یہ لطیفہ اس لیے یاد آیا کیونکہ میری طرح آپ کو بھی یقینا ایسے مذہبی لوگ ملتے ہوں گے جو آپ کو باور کراتے ہیں کہ ان کا ایمان جس مذہبی کتاب پہ ہے اس میں ان تمام ساءنسی تحقیقات کا حال پہلے سے موجود ہے جن تک انسان آج پہنچ رہا ہے۔ ان لوگوں کے کہنے پہ جب آپ ان مذہبی کتب کا مطالعہ کریں تو آپ بات واضح نہیں ہوتی کہ موجودہ ساءنسی تحقیقات کا حال کس طور پہ ان کتب میں درج ہے۔ اور اگر آپ زیادہ پوچھ گچھ کریں تو آپ سے ڈانٹ کر کہا جاتا ہے کہ آپ ذرا آنکھیں کھول کر کتاب میں دیے گءے اشاروں کو سمجھیں تو آپ صاف طور پہ دیکھ پاءیں گے کہ علم فلکیات سے کیمیا اور طبیعیات تک تمام علوم کی گہراءیاں ان کتابوں میں پہلے ہی موجود ہیں۔ آپ پہ یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ آپ کو جن اشاروں کو سمجھنے کی ہدایت دی جا رہی ہے وہ اس قدر مبہم ہیں کہ ان کو سمجھنے کے لیے آنکھیں کھلی رکھنے سے زیادہ پختہ ایمان کی شرط ہے۔
مجھے یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ آخر یہ ایمان والے دنیا کی ہر بات کو اپنی آسمان کتاب سے ثابت کرنے کی کوشش کیوں کرتے ہیں؟  سچ پوچھیے تو کسی آسمانی کتاب میں یہ نہیں لکھا کہ اب تم تمام کتابوں کو پڑھنا چھوڑ دو اور ہر قسم کے علم کے لیے صرف اس کتاب کا مطالعہ کرو۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ دنیا کے ہر معاملے اور بالخصوص نت نءی ساءنسی تحقیقات کی توجیہ کے لیے اپنی اپنی آسمانی کتاب میں جھانکنے والے لوگ دراصل ایسے کمزور ایمان والے ہیں جن کی یہ خام خیالی ہے کہ ان کی اپنی آسمانی کتاب مکمل علم ہے اور جب اس آسمانی کتاب سے باہر کا علم ان کی خام خیالی کا امتحان لیتا ہے تو اس امتحان میں پورا اترنے کے لیے وہ باہر کے علم کو آسمانی کتاب کے علم سے ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں؟  مقدس کتب یقینا بہت اہم ہیں اور قابل عزت ہیں مگر ان کتابوں کے ذریعے ساءنسی دریافتوں کو سمجھانے کی کوشش بہت بھونڈی ہے۔  میں آپ کو ایک مثال دیتا ہوں۔  سولھویں صدی میں نوسٹراڈامس نامی ایک شخص نے 'پیش گوءیاں' نامی ایک کتاب چھاپی۔ آج بھی دنیا کے ہر خطے میں آپ کو ایسے لوگ مل جاءیں گے جو نوسٹراڈامس کے 'علم' کو مانتے ہیں اور ثابت کرتے ہیں کہ نوسٹراڈامس کی موت کے بعد جتنے بھی بڑے تاریخی واقعات ہوءے ہیں وہ سب نوسٹراڈامس کی کتاب میں پہلے سے تحریر تھے۔ مثلا سوویت یونین ٹوٹا تو لوگوں نے نوسٹراڈامس کی کتاب کا حوالہ دیا؛ نوگیارہ کا واقعہ ہوا تو پھر نوسٹراڈامس کی 'پیش گوءی' صحیح ثابت ہوءی۔ نوسٹراڈامس کی 'پیش گوءیوں' کو ماننے والوں سے سوال ہے کہ آخر ایسا کیوں ہوتا ہے کہ ایک واقعہ ہوجاتا ہے تو آپ نوسٹراڈامس کی متعلقہ 'پیش گوءی' کا حوالہ دیتے ہیں؟ اسے پیش گوءی کہا جاءے یا بعدگوءی؟ ایسا کیوں نہیں ہوتا کہ آپ نوسٹراڈامس کی کتاب پڑھ کر ہمیں ابھی سے کل کے متعلق باخبر کر دیں؟  اور اسی طرح کا چیلنج مقدس کتب کے ذریعے ساءنسی اکتشافات کو ثابت کرنے والوں کے لیے بھی ہے۔ یہ لوگ اپنی اپنی مقدس کتاب پڑھ کر ساءنس سے آگے کیوں نہیں نکل جاتے؟ یہ لوگ ہمیں وہ کیوں نہیں بتادیتے جس تک ساءنس اب تک نہیں پہنچی ہے؟  مقدس انجیل سے وہ کلیہ نکال کر ہمیں کیوں نہیں پیش کردیتے جس سے واضح ہوجاءے کہ ہمیں کاءنات پھیلتی ہوءی کیوں نظر آرہی ہے؟  مقدس تورات سے فرمے کے آخری کلیے کا ایک آسان ثبوت ہمیں کیوں فراہم نہیں کر دیتے؟





Monday, May 14, 2012

 

ماوءں کے لیے چند گزارشات




مءی تیرہ،  دو ہزار بارہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم
  
اتوار کا روز ہے۔ مءی کی تیرہ تاریخ۔  ابھی کچھ دیر پہلے اسکاءپ پہ اپنی والدہ سے تفصیلی بات چیت ہوءی۔ یہ ٹیکنالوجی کی مہربانی ہے کہ یہاں کیلی فورنیا میں رہتے ہوءے ہر روز اپنی والدہ سے کراچی میں بات کرتا ہوں۔ آج ماں کا دن منایا گیا۔ ماں کے دن کا تجارتی پہلو بہت سے لوگوں کو ناگوار گزرتا ہے مگر سال میں ایک روز ماں کا دن منانا اس لیے ضروری ہے کہ جو لوگ روز اپنی ماں کا دن منانا بھول جاتے ہیں وہ کم از کم سال میں ایک دفعہ تو ایسا کر لیں۔  آج کے دن اس سلسلے میں دنیا بھر کی ماءوں کے سامنے چند گزارشات پیش کرنا چاہوں گا۔ بات کچھ عجیب معلوم دیتی ہے، ماں کے دن پہ ماں پہ تنقید۔ مگر خرابی لفظ تنقید کی تندی میں ہے ورنہ جو بات کہی جارہی ہے وہ اتنی نامعقول نہیں ہے۔ بہت پہلے کہیں انگریزی کا یہ جملہ پڑھا تھا کہ 'ایوری مدر از اے ورکنگ مدر' یعنی 'ہر ماں کام کرنے والی عورت ہے۔' یہ نعرہ دراصل اس سوال کے جواب میں تھا جو عورتوں سے پوچھا جاتا تھا کہ، کیا آپ کام کرتی ہیں؟ اور سوال پوچھنے کا مقصد یہ ہوتا تھا کہ معلوم کیا جاءے کہ جس عورت سے یہ سوال پوچھا جارہا ہے کیا وہ عورت گھر سے باہر کسی دفتر، کسی کاروبار میں کام کرتی ہے۔ یہ سوال ان عورتوں کو بہت برا لگا جو گھر سے باہر تو کام نہ کرتی تھیں مگر گھر میں بچے پالنے کے کام میں صبح سے شام تک جٹی رہتی تھیں۔ کیا بچوں کی پرورش کرنا کام نہیں ہے؟ کیا بچوں کی تربیت کرنا، ان کا خیال کرنا، اور ان کو بنیادی تعلیم دینا ایک بہت بڑی مصروفیت نہیں ہے؟ اور اسی وجہ سے بچے پالنے والی عورتوں نے یہ نعرہ بلند کیا کہ ہر ماں ایک کام کرنے والی عورت ہوتی ہے۔ بچے پالنے والی عورت کو اس نظر سے نہ دیکھا جاءے کہ وہ گھر سے باہر نکل کر کام نہیں کرتی اس لیے وہ کسی طور پہ ان عورتوں سے کم تر ہے جو مردوں کی طرح باہر دفاتر اور کارخانوں میں کام کرتی ہیں۔ بات بہت مناسب ہے۔ کہ اس بات کا کیا فاءدہ کہ وہ عورت جو بچے پال رہی ہے گھر سے باہر کسی دفتر یا کارخانے میں کام کر کے پیسے کماءے اور اس رقم سے کسی اور شخص کو نوکری دے جو اس عورت کے بچے پالے۔ وہ عورت یہ کام خود کیوں نہ کر لے؟ کیا کوءی بھی شخص کسی بچے کی تربیت بچے کے والدین سے بہتر کر سکتا ہے؟  مگر بچے پالنے والی ماءوں کے اس استدلال کو ماننے کے ساتھ ان سے گزارش یہ ہے کہ وہ بچے پالنے کے علاوہ کسی اور شعبے کو ضرور اپناءیں کیونکہ بچے پالنے کو مکمل مصروفیت اور کل وقتی نوکری ضرور گردانا جا سکتا ہے مگر یہ نوکری مستقل نہیں ہے۔ یہ نوکری عارضی ہے جو چند سالوں میں ختم ہو جاتی ہے۔ اگر آپ نے اس عارضی نوکری کو پیشہ سمجھ کر اپنایا تو اپنے بچے بڑے کرنے کے بعد آپ نوکری سے محروم ہو جاءیں گی اور اس عمر میں کسی نءے پیشے میں کودتے ہوءے آپ کو مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے۔ اور اگر اپنے بچے بڑے کرنے کے بعد آپ نے کوءی اور مصروفیت تلاش نہ کی تو آپ مستقل بچوں کی زندگیوں میں اپنی زندگی تلاش کرتی رہیں گی، جب کہ بچہ بڑا ہو کر اپنی زندگی میں مشغول ہو جاءے گا۔  اچھا یہ ہوگا کہ بچے پالنے والی ماءیں بچے پالنے کے دوران کسی شعبے میں اپنی مصروفیت جاری رکھیں چاہے وہ مصروفیت مختصر ہی کیوں نہ ہو۔ بچے بڑے ہو جاءیں تو آپ اس مصروفیت کو زیادہ وقت دے سکیں گی اور آپ کے سامنے زندگی کا ایک مقصد موجود رہے گا۔ کسی عورت کے لیے وہ زندگی بہت عمدہ نہیں ہے جس میں وہ ٹیلی فون کے ساتھ بیٹھے اپنے بچے کے فون کا انتظار کر رہی ہو یا بچے کی واپسی کے انتظار میں گھر کا دروازہ تک رہی ہو۔  شاید ایک بہتر دنیا وہ ہوگی جس میں ہر شخص وہ کام کرے جو وہ مرتے دم تک کرتے رہنا چاہتا ہے، کسی اور شخص کو اس کام کا مستقل حصہ بناءے بغیر؛ ایک ایسا کام جس سے ریٹاءرمنٹ کی کوءی خواہش نہ ہو۔ ایسا کام کرنے سے انسان کو اپنی 
زندگی کا ایک واضح مقصد مل سکتا ہے اور یہ وہ مقام ہے جہاں کام اور زندگی مدغم ہو جاتے ہیں۔


Tuesday, May 08, 2012

 

لیاری


مءی چھ،  دو ہزار بارہ
  
سنہ ۱۹۹۸ میں جب ہندوستان کے ایٹمی دھماکوں کے بعد جنوبی ایشیا میں جنگ کے بادل چھانے لگے تو میں اندر سے ٹوٹ گیا۔  ان دھماکوں کے دو ہفتے بعد پاکستان نے ایٹمی دھماکے کر دیے۔ آزادی اور حب الوطنی کے الفاظ مجھے کھوکھلے لگنے لگا۔ کیا ہم نے نوآبادیاتی نظام سے اسی لیے چھٹکارا حاصل کیا تھا کہ آپس میں لڑ پڑیں؟  کیا ہم نے برطانوی راج سے اسی لیے آزادی حاصل کی تھی کہ اپنے علاقے کے لوگوں کے بنیادی مساءل نظرانداز کرتے ہوءے اپنے قیمتی وساءل جھوٹی وطن پرستی کے مقابلے میں جھونک دیں؟ کیا ایک دوسرے سے ہمارے باہمی خطرات غربت و افلاس کے خطرات سے بڑھ کر ہیں؟  دونوں ملکوں کے ایٹمی دھماکوں کے بعد دنیا بھر کی امن پسند تحریکیں فعال ہو گءیں کہ ان دو غریب ترین ممالک کے جذباتی لوگوں کو سمجھاءیں کہ ایٹمی اسلحے کی دوڑ اس علاقے کے مفاد میں نہیں ہے۔ جاپان ضد نیوکلءیر تحریکوں میں آگے آگے ہے۔ جاپان وہ واحد ملک ہے جس نے ایٹمی ہتھیار کے مہلک اثرات براہ راست دیکھے اور جھیلے ہیں۔ جاپان سے تعلق رکھنے والے ضد نیوکلءیر مفکر دنیا بھر میں ایٹمی ہتھیاروں کے خلاف آواز اٹھاتے رہتے ہیں۔ ایسے ہی ایک جاپانی ادارے نے پاءلر، پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیبر ایجوکیشن اینڈ ریسرچ، نامی فلاحی ادارے سے رابطہ کیا اور پاکستانی ایٹمی دھماکوں کے کچھ ہی عرصے بعد ایک جاپانی وفد کراچی پہنچا تاکہ پاءلر کی مدد سے ایک عوامی رابطہ مہم شروع کی جاءے اور عوام میں یہ شعور اجاگر کیا جاءے کہ ہتھیاروں کی دوڑ محض تباہی کا راستہ ہے؛ وطن سے محبت ایٹمی دھماکوں پہ ناچنے کا نام نہیں، بلکہ حب الوطنی اپنے ہم وطنوں کے دیرینہ مساءل حل کرکے ثابت کی جاتی ہے۔  اس مہم کا ایک جلسہ لیاری میں ہوا۔ میں کراچی میں پیدا ہوا اور وہیں پلا بڑھا ہوں مگر ضدنیوکلءیر مہم کا وہ جلسہ پہلا موقع تھا جب میں کراچی کے اس قدیم ترین علاقے میں گیا۔ میں غالبا پاءلر کے ڈاءریکٹر کرامت علی صاحب کے ساتھ لیاری گیا تھا۔ جلسہ بہت منظم اور کامیاب تھا اور میں رات گءے خوش خوش گھر لوٹا۔  اس واقعے کے بعد لیاری کا میرا دوسرا چکر اس سال کے شروع میں لگا۔ لیاری کا وہ علاقہ جو گارڈن سے لگتا ہے عثمان آباد کہلاتا ہے؛ وہیں گلوبل ساءنس نامی رسالے کا دفتر ہے۔ میں گلوبل ساءنس کے مدیر اور نامور پاکستانی ساءنسی صحافی علیم احمد صاحب سے ملنے ان کے دفتر گیا تھا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ کراچی سے تعلق رکھنے کے باوجود لیاری سے میری واقفیت واجبی ہے۔ چنانچہ پچھلے چھ آٹھ ماہ سے بالعموم اور پچھلے آٹھ دس دن سے بالخصوص جب لیاری مستقل پاکستان کی خبروں کی زینت رہا تو مجھے شدت سے احساس ہوا کہ میں لیاری کے بارے میں کس قدر کم جانتا ہوں۔ مگر لیاری کے بارے میں بہت کم جاننے کے باوجود میں اتنا ضرور جانتا ہوں کہ جنوبی ایشیا کے دو بڑے ممالک کے درمیان جھوٹی وطن پرستی کے کھوکھلے اور مکار مقابلے کی طرح کراچی کے اندر بھی لسانی گروہوں کے حوالے سے ایک کھوکھلی اور مکار جنگ موجود ہے۔ ایک ایسی مکار جنگ جس میں اس بنیادی امر سے پہلوتہی کی جاتی ہے کہ غربت و افلاس کا کوءی مذہب نہیں ہوتا، کوءی زبان نہیں ہوتی۔ ہر تحریک، ہر جماعت، ہر ادارہ جس کا دعوی ہے کہ وہ کسی مخصوص گروہ کے لوگوں کے حقوق کا علمبردار ہے اسے چاہیے کہ وہ دوسروں سے لڑنے کے بجاءے اپنے گروہ کے حالات سدھارنے پہ توجہ دے۔
سندھ کے سینءیر وزیر ذوالفقار مرزا کے استعفی کے بعد لیاری سے تعلق رکھنے والا ایک خاص گروہ محسوس کرتا ہے کہ حکومت میں اس کا دوست کوءی نہیں ہے۔ اس گروہ سے تعلق رکھنے والے لوگ پہلے پیپلز امن کمیٹی کے نام سے جانے جاتے تھے اور پھر اس کمیٹی پہ حکومتی پابندی کے بعد اب یہ ایک نءے نام سے سامنے آءے ہیں۔ اس گروہ کے مرکزی راہ نما عذیر بلوچ نے اعلان کیا ہے کہ آءندہ لیاری کے لوگ پیپلز پارٹی کو ووٹ نہیں دیں گے اور ان لوگوں کو اپنا نماءندہ بناءیں گے جو اسی علاقے میں رہتے ہوں اور اس وجہ سے اس علاقے کے مساءل سے بخوبی واقف ہوں۔ اگر لیاری آپریشن کا کوءی خوش آءند پہلو ہے تو یہی ہے کہ لیاری کے لوگوں کو یہ احساس ہوا ہے کہ جمہوریت گروہی وفاداری کے جھوٹے مظاہرے کا نام نہیں ہے بلکہ اپنی حالت بدلنے کا ایک قیمتی موقع ہوتا ہے۔ جمہوریت کا مطلب یہی ہے کہ حکومت جمہور کی بنے نہ کہ ان لوگوں کی جو جمہور سے بہت دور کہیں اور رہتے ہوں اور محض ووٹ لینے کے لیے کسی خاص علاقے میں پہنچ کر اس علاقے کے لوگوں سے اپنا لسانی یا کسی اور طرح کا تعلق جتا کر ان لوگوں کا ووٹ حاصل کر لیں۔ کاش لیاری کے لوگ یہ بات بھی جان لیں کہ وہ متحد ہو کر اپنے مساءل حل کرنے کا سامان بھی بہت حد تک خود ہی کر سکتے ہیں۔ وہ متحد ہو کر یہ صورت پیدا کر سکتے ہیں کہ ان کا علاقہ امن کا گہوارا بن جاءے اور وہاں سے جراءم پیشہ لوگوں کا قلع قمع ہوجاءے۔

Labels: , , , ,


 

بات منٹو کی اور وادی سندھ تہذیب کی



اپریل انتیس، دو ہزار بارہ



تخلیق کار حساس ہوتا ہے۔ آرٹ اپنے حالات پہ تبصرہ کرنے کا ہی دوسرا نام ہے۔ شاعر، لکھنے والا، بت تراش، مصور، یہ سب لوگ اپنے آس پاس کے حالات سے متاثر ہو کر تخلیق کا کام کرتے ہیں، اور اپنے آرٹ کے ذریعے کبھی مروجہ سوچ کے حساب سے اور کبھی مروجہ سوچ سے بغاوت کرتے ہءوے اپنے محسوسات دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ یہ بے انتہا ذہین لوگ فکر کے اس مقام پہ کام کرتے ہیں جہاں خرد اور جنوں کی سرحدیں آپس میں ملتی ہیں، اور اسی لیے ان میں سے بہت سے لوگوں کو دنیا پاگل خیال کرتی ہے۔
سعادت حسن منٹو بھی ایسا ہی ایک حساس آدمی تھا۔ سنہ سینتالیس کی قتل و غارت گری نے اس حساس لکھاری کو جنون کے قریب تر دھکیل دیا۔ منٹو کے اندر نہ جانے کون کون سے دیو پل رہے تھے جن سے وہ لڑتا رہا اور اس لڑاءی میں اپنی مدد کے لیے اس نے ایسی دوا کا سہارا لیا جو باآسانی دستیاب تو تھی مگر اس کے لیے نسخہ شفا نہ تھی۔ کثرت مے نوشی نے اس کے جسم کو تباہ کردیا اور وہ بیالیس سال کی عمر میں اس دنیا سے رخصت ہوگیا۔ مجھے یہ خیال ہے کہ لوگ جب مرتے ہیں تو ان کی عمر ٹہر جاتی ہے۔ سنہ پچپن میں جب منٹو مرا تو وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بیالیس سال کا رہ گیا اور اسی لیے منٹو کے متعلق بات  کرتے ہوءے میں اس وقت منٹو کو سن میں اپنے سے کم عمر خیال کررہا ہوں۔ کثرت شراب نوشی نے صرف منٹو ہی کو نہیں مارا بلکہ اور بھی آرٹسٹوں کو مستقل مارتی رہی ہے۔ ابھی چند دن پہلے مشہور امریکی مصور تھامس کنکیڈ کی ہلاکت بھی بلا نوشی کے ہاتھوں ہوءی۔ کنکیڈ کا انتقال یہیں سان فرانسسکو بے ایریا کے علاقے میں ہوا۔ منٹو کی طرح کنکیڈ کو بھی ناقدین نے اپنے طنز و تمسخر کا نشانہ بنایا تھا۔ اور تاریخ میں ایسا بارہا ہوا ہے کہ حساس لوگوں کو ان کے احساس نے اس جگہ پہنچا دیا جہاں انہوں نے کسی نہ کسی طرح اپنی جلد موت کا انتظام کر لیا۔ ایسے ہی لوگوں میں ونسنٹ فان غوغ کی مثال بھی دی جا سکتی ہے۔  تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آرٹسٹ کو اپنے آپ سے کیسے بچایا جاءے۔ یا یہ یوں ہے کہ اگر تخلیق کاروں کے لیے کوءی ایسا فلاحی ادارہ بن جاءے جو آرٹسٹ کو اس کی مضر عادات سے بچاءے اور اس کے نفسیاتی علاج کے سلسلے میں اسے پروزیک یا دوسری مسکن ادویات پہ ڈالے تو کیا آرٹسٹ ذہنی طور پہ بدل جاءے گا اور شاہکار آرٹ نہ تخلیق کر پاءے گا؟ گویا، کیا یہ یوں ہے کہ تخلیق کار کے لیے بہترین آرٹ تخلیق کرنے کی شرط ہی یہ ہے کہ وہ اپنی آگ میں جلتا رہے اور جلد اس دنیا سے گزر جاءے؟ یہ سارے خیالات میرے ذہن میں سنیچر کے روز اس محفل میں آءے جس کا اہتمام بے ایریا کی مایہ ناز شخصیت ڈاکٹر آغا سعید کی تنظیم پی اے ڈی ایف، پاکستان امیرکن ڈیموکریٹک فورم، نے چاندنی ریستوراں، نو ارک میں کیا تھا۔ اس تقریب میں محترمہ صباحت رفیق شیروانی، ڈاکٹر اشرف چوہدری، ڈاکٹر عبدالجبار، اور ڈاکٹر میلنی ٹنیلین نے اپنے مقالے پیش کیے۔ اس جلسے کی کارواءی کی آڈیو جلد ہی آرکاءیو ڈاٹ آرگ نامی ویب ساءٹ پہ ڈالوں گا اور ربط کراچی فوٹو بلاگ پہ پیش کروں گا۔
آج یعنی اتوار، اپریل انتیس کے روز انڈیا کیمونٹی سینٹر، مل پیٹس میں انڈس ہیریٹیج ڈے نامی ایک پروگرام  منعقد ہوا۔ اس جلسے کا اہتمام سنہ سینتالیس تقسیم آرکاءیو، پاکستان امریکن کلچرل سینٹر، اور انڈیا کمیونٹی سینٹر نے کیا تھا۔ جلسے کی خاص بات جامعہ وسکانسن، میڈیسن کے پروفیسر مارک کنویر [کی نویر یا کناءر] کی تقریر تھی۔ پروفیسر کنویر وادی سندھ تہذیب کے عالمی ماہر سمجھے جاتے ہیں۔ انہوں نے ہڑپہ اور موءنجودڑو پہ بہت کام کیا ہے۔ تقریب میں پروفیسر کنویر کی تقریر سے پہلے معروف فلم ساز ثاقب موصوف کی دستاویزی فلم 'ان سرچ آف ملوہا' دکھاءی گءی۔ واضح رہے کہ ہڑپہ اور موءنجودڑو میں کھداءی سے جو اشیا برآمد ہوءی ہیں ان سے تخمینہ لگایا جاتا ہے کہ ان تاریخی شہروں کا دور عروج قریبا تین ہزار قبل از مسیح تھا۔ اس قدیم  وقت میں بھی وادی سندھ تہذیب کے شہروں کا تجارتی تعلق دوسرے علاقوں سے تھا اور باہر کی دنیا کے لیے وادی سندھ تہذیب ملوہا کے نام سے جانی جاتی تھی۔ پروفیسر کنویر کی تقریر موثر تصاویر کے ساتھ تھی۔ اپنی تقریر میں پروفیسر کنویر نے کہا کہ پرانے ماہرین آثار قدیمہ کا یہ خیال درست نہیں ہے کہ ہڑپہ اور موءنجودڑو کے لوگ اچانک ہی کہیں غاءب ہو گءے یا شمال مغرب سے آنے والے آریا کے حملوں میں مارے گءے۔ کنویر کا کہنا تھا کہ وادی سندھ تہذیب کے شہر دریا کا رخ بدلنے کی وجہ سے سینکڑوں سالوں کے دورانیے میں رفتہ رفتہ خالی ہوءے اور ان شہروں کو چھوڑنے والے لوگ آس پاس کے علاقوں میں منتقل ہوگے۔ چنانچہ، کنویر کی راءے میں، جنوبی ایشیا کے لوگ پچھلے پانچ ہزار سال سے زیادہ عرصے سے اس علاقے میں رہ رہے ہیں اور باہر سے آنے والے لوگ ان لوگوں میں شامل ہوتے رہے ہیں۔ پروفیسر کنویر کا کہنا تھا کہ وادی سندھ تہذیب میں چوڑیاں سماجی عہدے کی نشاندہی کرتی تھیں اور امارت کی نشانی کا یہ طریقہ آج بھی راءج ہے۔ کنویر نے کہا کہ یوگا کے آسن بھی وادی سندھ تہذیب ہی سے شروع ہوءے۔ اس عمدہ تقریب کی تصاویر اور پروفیسر کنویر کی تقریر کے 
لیے کراچی فوٹو بلاگ کا معاءنہ کیجیے۔


 

ذکر شہدا کا اور گیندے کے پھولوں کا



اپریل باءیس، دو ہزار بارہ


  
آپ پوچھ سکتے ہیں کہ آخر عقیلہ اسماعیل نے سقوط مشرقی پاکستان پہ اس قدر اہم کتاب انگریزی میں کیوں لکھی۔ بات ہو رہی ہے  'آف مارٹرز اینڈ میری گولڈز' کی جو سقوط ڈھاکہ کے موضوع پہ عقیلہ اسماعیل کا انگریزی ناول ہے ؛ انگریزی عنوان کا آزاد  اردو ترجمہ 'ذکر شہدا کا اور گیندے کے پھولوں کا' کے طور پہ کیا جا سکتا ہے۔  شاید عقیلہ اسماعیل نے یہ کتاب انگریزی میں اس لیے لکھی تاکہ پاکستان اور بنگلہ دیش دونوں ممالک کے لوگ اسے پڑھ سکیں۔ مگر یہ کتاب اتنی اہم ہے کہ اس بات کی ضرورت ہے کہ اس کتاب کا ترجمہ جلد از جلد اردو اور بنگلہ میں کیا جاءے اور اس کی پہنچ دور تک بڑھاءی جاءے۔ ذکر شہدا کا اور گیندے کے پھولوں کا ایک ناول کے طور پہ لکھی گءی ہے مگر چند صفحات پڑھ کر ہی قاری کو اندازہ ہوجاتا ہے کہ یہ کتاب دراصل آپ بیتی ہے۔ کسی مصنف کا قلم کتنا ہی رواں کیوں نہ ہو واقعات کو ایسی تفصیل سے اس وقت تک نہیں بیان کیا جاسکتا، جس تفصیل سے اس کتاب میں بیان کیے گءے ہیں، کہ جب تک کہ وہ خود مصنف پہ  نہ گزرے ہوں۔  بنگلہ دیش بننے کے بعد جب عقیلہ اسماعیل اپنے اہل خانہ کے ساتھ کراچی منتقل ہوءیں تو انجینءیرنگ پڑھنے کے بعد وہ جامعہ این ای ڈی میں پڑھاتی رہیں۔ مگر لگتا ہے کہ اس درمیان وہ اندر ہی اندر ایک کرب میں مبتلا رہیں اور اس موقع کی تلاش میں رہیں جب وہ اپنی بیتی، اپنے اندر کا سچ دنیا کے سامنے پیش کریں۔ تدریس سے ریٹاءرمنٹ کے بعد عقیلہ اسماعیل کو ایسا کرنے کا موقع مل گیا اور ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہمیں 'ذکر شہدا کا اور گیندے کے پھولوں کا' پڑھنے کو ملی۔  سانحہ مشرقی پاکستان پہ بنگلہ میں بہت سی کتابیں لکھی گءی ہیں اور اردو میں بھی چند کتابیں موجود ہیں۔ پاکستان میں جو کتابیں سقوط ڈھاکہ پہ لکھی گءیں ان میں سے بیشتر اس سانحے کے سیاسی پہلوءوں کا معاءنہ کرتی ہیں۔ سقوط پاکستان کا جب ذکر آتا ہے لوگ سیاسی باتیں کرتے ہیں، بھٹو کو کیا کرنا چاہیے تھا، یحیی خان نے کیا کیا، شیخ مجیب رحمن نے ایسا کیوں کیا۔ مگر اس درمیان میں عام لوگوں پہ کیا گزری،  کوءی اس بارے میں بات نہیں کرتا۔  عقیلہ اسماعیل کی کتاب ایک عام لڑکی کی کہانی ہے۔ ایک لڑکی جس نے ڈھاکہ میں ہوش سنبھالا ہے مگر جس کے خاندان والے اردو بولتے ہیں۔ اور اردو بولنے کی وجہ سے بنگلہ دیش کی آزادی کے وقت یہ لوگ خود بخود دشمن گردانے جاتے ہیں۔  بنگالی سپاہی جب چاہتے ہیں ان کے گھروں میں گھس آتے ہیں؛ جس کو چاہتے ہیں زدوکوب کرتے ہیں اور جس پہ پاکستانی فوج کے ساتھ ملے ہونے کا شک ہو جاءے اسے جان سے بھی مار ڈالتے ہیں۔ عقیلہ اسماعیل بلاتعصب واقعات کا جاءزہ لینا جانتی ہیں اور اسی لیے جہاں وہ بنگالیوں کی اردو بولنے والوں پہ ظلم کی داستان سناتی ہیں، وہیں پاکستانی فوج کی درندگی کا تذکرہ بھی کرتی ہیں۔ اور یوں قاری کے سامنے سانحہ مشرقی پاکستان کی ایک مکمل تصویر ابھر کر آتی ہے۔ اندازہ ہوتا ہے کہ انسان لاجواب حیوانیت اختیار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور جنگ انسان کو واقعی درندہ بنا دیتی ہے۔  آزادی کے خوب صورت نعرے کے تناظر میں قاری یہ بھی سوچنے پہ مجبور ہوتا ہے کہ سنہ سینتالیس میں انگریز کے جانے کے بعد جنوبی ایشیا کے لوگ مستقل اچھی اور منصف حکومت کی تلاش میں ہیں اور نہ جانے ایسا کیوں ہوتا ہے کہ  ہر دفعہ روٹی، کپڑا، مکان، اور سماجی انصاف کی تلاش ایک گروہ کی دوسرے گروہ سے دشمنی پہ ختم ہوتی ہے۔ کبھی مذہب، کبھی زبان، کبھی جغرافیاءی تعلق کے حوالے سے لوگ ایک دوسرے کے گلے کاٹنے لگتے ہیں اور بے انتہا خون بہانے کے بعد جب ایک نیا ملک وجود میں آتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ بنیادی مساءل تو جوں کے توں ہی رہے۔
عقیلہ اسماعیل کی کتاب امیزان ڈاٹ کام پہ دستیاب ہے اور نہایت کم قیمت پہ کنڈل پہ پڑھی جا سکتی ہے۔

Labels: , , , , ,


 

ہزارہ پہ قیامت




اپریل پندرہ، دو ہزار بارہ


اسراءیل کا سفر نامہ جاری ہے مگر اس درمیان پاکستان کے دگرگوں حالات سے صرف نظر ممکن نہیں۔
بہادر شاہ ظفر کے دادا شاہ عالم دوءم کے اقتدار کے لیے کہا جاتا تھا کہ، سلطنت شاہ عالم، از دلی تا پالم۔ واضح رہے کہ یہاں اسی پالم کا ذکر ہے جو آج کل دہلی کے ہواءی اڈے کے طور پہ جانا جاتا ہے۔ کہنے کو تو پاکستان میں جمہوریت ہے اور عوام کی نماءندہ حکومت اقتدار میں ہے مگر امن عامہ کے معاملے میں اس حکومت کا کوءی خاص بس نہیں چلتا۔ سلطنت شاہ عالم والا حساب ہے۔ قاتل آزاد ہے، جس کو چاہے مارے اور جب چاہے مارے۔ صوبہ بلوچستان میں بسنے والے ہزارہ لوگ قریبا ڈیڑھ صدی سے وہاں رہ رہے ہیں۔ یہ لوگ ہزارگی زبان بولتے ہیں جو فارسی سے مشابہ ہے۔ مذہبی عقاءد میں یہ لوگ اثناءے عشری یا شیعہ ہیں۔ واضح رہے کہ ان لوگوں کا صوبہ پختوانخاہ کے علاقے ہری پور ہزارہ سے کوءی تعلق نہیں جہاں کے لوگ ہندکو زبان بولتے ہیں۔ بلوچستان میں بسنے والے ہزارہ لوگوں کے متعلق قیاس ہے کہ یہ وسطی افغانستان سے بلوچستان آءے ہیں کیونکہ وسطی افغانستان میں آج بھی ہزارہ لوگوں کی ایک بڑی آبادی موجود ہے۔ پاکستان میں مذہبی منافرت بتدریج بڑھی ہے۔ جب سے جمہوریہ پاکستان کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہوا ہے، مذہبی منافرت کا جن سرکاری معاملات میں گھس آیا ہے۔ اب اسلامی جمہوریہ پاکستان کو مستقل اس فیصلے پہ مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ بتاءے کہ کس کا اسلام صحیح اسلام ہے۔ صحیح اسلام کے متعلق فیصلہ کرنا تو مشکل ہے البتہ دین اسلام سے لوگوں کو خارج کرنا زیادہ آسان ہے۔ چنانچہ سب سے پہلے قادیانیوں کو دین اسلام سے خارج کیا گیا۔ پھر جب حکومت نے اس جھنجھٹ میں پڑنے سے انکار کیا تو مذہبی جماعتوں نے خود ہی اپنے طور پہ دوسروں پہ کفر کے لیبل لگانا شروع کر دیا۔ ضیا دور میں اور اس کے بعد بھی جن غیرفوجی گروہوں کو جہاد کے لیے تیار کیا گیا تھا، جب ان لوگوں کے دوسری جگہ جا کر جہاد کرنے کے راستے بند ہوءے تو انہوں نے گھر سے ہی اس 'نیک کام' کا آغاز کر دیا۔ ان لوگوں کی منطق میں کافر کو مارنا ثواب ہے اور ان کے مسلک کے باہر تمام لوگ کافر ہیں چنانچہ جو شخص ان کے مسلک سے جس قدر زیادہ جدا ہے، اس قدر جلد موت کا حق دار ہے۔ اس سلسلے میں شدت پسند سنی مذہبی جماعتوں کا نزلہ شیعہ پہ گر رہا ہے۔ شعیہ کافر ہیں، چنانچہ جہاں موقع لگے شیعہ افراد کو مارا جاءے۔ ایک مسلح گروہ کسی بس کو روکتا ہے، لوگوں کے شناختی کارڈ جانچے جاتے ہیں، شیعہ ناموں والے افراد کو الگ نکال کر قطار سے کھڑا کیا جاتا ہے اور ان کو گولی مار کر ختم کر دیا جاتا ہے۔ پھر یہ مسلح گروہ جاءے واردات سے غاءب ہوجاتا ہے۔ اس طرح کی وارداتیں گلگت کے علاقے میں بھی ہوءی ہیں اور بلوچستان میں بھی۔ بلوچستان میں ہزارہ لوگوں پہ قیامت ٹوٹی ہوءی ہے۔ اب تو شاید ہی کوءی ہفتہ جاتا ہو جب چار چھ ہزارہ افراد کو گولیوں سے نہ بھونا جاتا ہو۔ اور اس قیامت کے جواب میں حکومت پاکستان کے پاس کوءی دوا نہیں ہے۔ سینکڑوں ہزارہ لوگوں کے قتل کے بعد بھی آج تک کسی شخص کو ان ہلاکتوں کے سلسلے میں گرفتار نہیں کیا گیا۔ یہ کون لوگ ہیں جو اس قدر بے باکی سے ہر چند دن بعد نمودار ہوتے ہیں اور ہزارہ لوگوں کو مار کر آرام سے غاءب ہو جاتے ہیں؟ ایک راءے یہ ہے کہ ہزارہ لوگوں کے قتل کی مہم میں شدت پسند سنی مذہبی تحریکوں کا الحاق پاکستان دشمن عناصر کے ساتھ ہے۔ ہزارہ لوگوں کے قتل میں جہاں مذہبی جنونیوں کو 'ثواب' حاصل ہورہا ہے وہیں وفاق پاکستان سے وفاداری رکھنے والے لوگ بھی بلوچستان سے ختم ہو رہے ہیں؛ اس کے ساتھ اس قتل و غارت گری سے بلوچستان کا نام بھی شہ سرخیوں کی زینت بنا رہتا ہے، جس کا اپنا الگ سیاسی فاءدہ ہے۔  بہرحال، ہزارہ لوگوں کے قتل سے کوءی کسی طرح کا فاءدہ اٹھا رہا ہو، عوام تو حکومت سے جواب چاہتے ہیں۔ عوام حکومت کی امان میں رہتے ہیں۔ اپنی منتخب حکومت سے سب سے پہلی چیز جو وہ چاہتے ہیں وہ جان و مال کی حفاظت ہے۔ جس حکومت کے زیر اثر لوگوں کی جان و مال محفوظ نہ ہو، وہ کسی پذیراءی، کسی عزت کی مستحق نہیں۔ ہم ہزارہ لوگوں کے درد میں شریک ہیں اور ان سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ اپنی حفاظت کے لیے حکومت پاکستان کی طرف دیکھنا چھوڑ دیں۔ اپنی حفاظت کا انتظام خود کریں۔ اگر دو ٹکے کے مذہبی جنونی غیرقانونی اسلحہ خرید کر شریف لوگوں کو مذہب کے نام پہ قتل کر رہے ہیں تو شرفا کو خود کو مسلح کرنے کی خواہش سے روکنا حماقت ہے۔ جب لوگوں کی جان و مال محفوظ رکھنے میں حکومت ناکام ہو جاءے تو گروہوں کا یہ فرض بن جاتا ہے کہ وہ اپنی جگہ حکومت کی یہ ذمہ داری قبول کریں اور اپنے گروہ میں موجود لوگوں کی خود حفاظت کریں۔ 

This page is powered by Blogger. Isn't yours?