Tuesday, February 21, 2012

 

عدالت خود توہین عدالت کی مرتکب؟




فروری بیس، دو ہزار بارہ


اردو کی مختصر کہاوت ہے، اپنی عزت، اپنے ہاتھ۔ یعنی انسان اپنی عزت خود کراتا ہے۔ گویا انسان ایسے حالات نہ پیدا کرے کہ اس کی بے عزتی کی جاءے۔ یہ کلیہ پاکستان کے حالیہ سیاسی بحران میں ملک کی عدالت عظمی پہ بھی لاگو ہوتا ہے۔
افتخار چوہدری صاحب جس بھرپور وکلا تحریک کے بعد دوبارہ اپنے عہدے پہ فاءز ہوءے، اس سے انہیں اپنی 'بے پناہ مقبولیت' کا مکمل طور پہ یقین ہو گیا۔ یوں لگتا ہے کہ جسٹس افتخار چوہدری نے پاکستان کو سدھارنے کا بوجھ اپنے کندھوں پہ محسوس کیا۔ انہوں نے ذمہ داری کے اس احساس تلے سو موٹو مقدمات لینے شروع کیے۔ ایک شور سناءی دیا کہ ملک کا لوٹا ہوا مال واپس ملک میں لایا جاءے گا۔ آصف علی زرداری جن موٹی قانونی چہاردیواریوں کے پیچھے ایوان صدر میں آرام سے بیٹھے تھے، افتخار چوہدری صاحب نے ان دیواروں کو گرانا شروع کیا۔ سب سے پہلے قومی مفاہمتی آرڈیننس یا این آر او کا معاملہ عدالت نے خود اپنے سامنے پیش کیا اور پھر فیصلہ دیا کہ تعزیرات پاکستان کے حساب سے قومی مفاہمتی آرڈیننس بے معنی اور کالعدم ہے۔ دوسرے مرحلے میں عدالت عظمی نے ان لوگوں پہ ہاتھ ڈالنا شروع کیا جو قومی مفاہمتی آرڈیننس سے بہرہ مند ہوءے ہیں۔ اس سلسلے میں پی پی پی کے جیالے ایف آءی اے کے ایڈیشنل ڈاءریکٹر جنرل ریاض شیخ کو گرفتار کیا گیا۔ اگلا نشانہ این آر او کی سب سے بڑے عنایت یافتہ شخصیت آصف علی زرداری تھے۔ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ آصف علی زرداری بہت امیر آدمی ہیں اور انہوں نے اپنا پیسہ اپنی بیگم بینظیر بھٹو کے دور حکومت میں بنایا ہے مگر کسی قسم کا واضح ثبوت نہیں ہے کہ آصف علی زرداری کی دولت رشوت کا پھل ہے۔ کہا جاتا ہے کہ پاکستان نیوی کے لیے آبدوز خریدنے کے سودے میں، اور برآمدات اور درآمدات کو جدید خطوط پہ استوار کرنے کے لیے کوٹیکنا سے کیے جانے والے معاہدے میں لمبی رقوم بناءی گءیں۔ آصف علی زرداری کے بیرونی بینک کھاتوں کے بارے میں بھی سب کو معلوم ہے۔ اب اگر سوءس حکومت وہ مقدمات دوبارہ کھولے جو نواز شریف دور میں حکومت پاکستان کی ایما پہ شروع کیے گءے تھے اور جن میں زرداری پہ رشوت ستانی کا الزام تھا، تو ان مقمدات کے تحت سوءس اور دیگر عالمی بینکوں پہ دباءو ڈال کر یہ معلوم کیا جا سکتا ہے کہ آصف علی زرداری کے بینک کھاتوں میں کتنی رقم ہے، اور کس تاریخ کو کس رقم کا چیک کس کی طرف سے اس کھاتے میں جمع کیا گیا۔ اور اس طرح ذرا سی دیر میں آصف علی زرداری کی دولت کا حساب مل سکتا ہے۔ یہی کچھ معلوم کرنے کے لیے جسٹس افتخار چوہدری صاحب نے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو عدالتی حکم دیا کہ وہ سوءس حکومت کو خط لکھیں کہ وہ آصف علی زرداری کے خلاف مقدمات دوبارہ کھولے تا کہ مختلف بینکوں پہ دباءو ڈال کر زرداری کے بینک کھاتوں کا حساب کتاب پاکستان تک پہنچ سکے۔ اور وزیر اعظم نے جب ایسا نہیں کیا تو ان پہ ہتک عدالت کا الزام ہے۔ کیا یہ بات افتخار چوہدری سمیت پورے پاکستان کے علم میں نہیں ہے کہ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور صدر آصف علی زرداری ایک ہی سیاسی پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ ایک ٹیم کے لوگ ہیں اور مل کر کھیلنا چاہتے ہیں۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ افتخار چوہدری کے حکم پہ گیلانی سوءس حکومت کو خط لکھیں کہ سوءس حکومت پرانے مقدمات ازسرنو شروع کرے اور آصف علی زرداری کے اثاثوں کا پول کھولے۔ اس بات کی امید کرنا کہ گیلانی عدالت عظمی کا ایسا کوءی حکم مانیں گے نادانی نہیں تو کیا ہے؟ اور جب معلوم ہے کہ وزیراعظم گیلانی ایسا ہرگز نہیں کریں گے تو وزیراعظم کو ایسا کرنے کا حکم دینا ہتک عدالت کا سامان کرنا نہیں تو کیا ہے؟ عدالت کا یہ بچکانہ فعل تقریبا اس تخیلی عدالتی فعل جیسا ہے جس میں چوری کے ملزم سے کہا جاءے کہ وہ جلد از جلد عدالت کے سامنے اپنی چوری کا سارا ثبوت پیش کردے اور جب چور ایسا نہ کرے تو اس پہ توہین عدالت کا مقمہ چلایا جاءے کہ اس نے عدالت کی بات نہیں مانی۔

Sunday, February 19, 2012

 

نءی بستی








فروری بارہ، دو ہزار بارہ

ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں جہاں دیگر فرق ہیں وہیں ان ممالک کے عوام میں بھی فرق نظر آتا ہے۔ آپ امریکہ سے جنوبی ایشیا جاءیں اور اپنے سفر کی مختلف منازل پہ اپنے آس پاس موجود لوگوں کا مشاہدہ کریں تو آپ کو اچھی طرح معلوم ہوگا کہ کس فرق کی بات کی جا رہی ہے۔ شاید لوگوں میں نفاست کے مختلف درجوں پہ فاءز ہونے کے فرق کا تعلق تعلیم سے ہے۔ اکثر ترقی یافتہ ممالک میں خواندگی کی شرح نوے فی صد سے اوپر ہے۔ دوسرے ترقی پذیر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی خواندہ لوگوں کی شرح چالیس فی صد سے کم ہے۔ جہموریت لوگوں کی راءے سے حکومت قاءم کرنے کا ایک طریقہ ہے۔ اس طریقے کے پیچھے یہ مفروضہ ہے کہ ہر شخص سوچنے سمجھنے کی اعلی صلاحیت رکھتا ہے اور حکومت کن لوگوں کی ہونی چاہیے اس معاملے میں ہر شخص کی راءے اہم ہے۔ مگر کیا واقعی ایسا ہی ہے؟ کیا ایک جاہل مرد کی راءے ایک نہایت پڑھی لکھی عورت کی راءے کے برابر ہو سکتی ہے؟ ایسا یقینا نہیں ہے۔ اور شاید اسی وجہ سے کم خواندگی والے ممالک میں جمہوریت کام کرتی نظر نہیں آتی۔ مگر ترقی پذیر معاشروں میں جمہوریت کے لولے لنگڑے ہونے کے باوجود شاید ہی کوءی پڑھا لکھا شخص ان معاشروں میں آمریت قاءم کرنے کی وکالت کرے۔ تو پھر ترقی پذیر ممالک میں یہ ظالم چکر کیسے توڑا جاءے کہ کم پڑھے لکھے لوگوں کی اکثریتی راءے سے اقتدار میں ایسے چال باز سیاستداں آءیں جو اپنا الو سیدھا کریں اور جمہور کی بہتری پہ کوءی توجہ نہ دیں اور عوام پھر ان پڑھ رہ جاءے، اور اگلی بار یہ ان پڑھ عوام پھر غیر ذمہ دار حکومت منتخب کرے اور یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہے۔ کیا ایک ترقی پذیر ملک میں ایسی جگہ بناءی جا سکتی ہے جو اپنے ماحول سے یکسر مختلف ہو، ایک ایسی جگہ جہاں داخلے کی شرط ہی خواندگی ہو؟ کیا ایسی آبادی قاءم کر کے، لوگوں پہ یہ دباءو بڑھایا جا سکتا ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح لکھنا پڑھنا سیکھیں۔ اگر آپ اس خیال پہ حیران ہیں تو اپنی حیرت کہیں ایک طرف رکھ دیں کیونکہ کچھ لوگ اس خیال پہ سنجیدگی سے کام کر رہے ہیں۔ یہ لوگ کراچی سے باہر ایک ایسی آبادی بسانا چاہتے ہیں جس کی حدود میں صرف وہی لوگ داخل ہو سکیں گے جو اس نءی آبادی کے رکن ہوں گے۔ اور رکنیت کی بنیاد خواندگی ہو گی۔ ہزار ایکڑ پہ واقع یہ ایک ایسا گاءوں ہوگا جس میں لوگوں کے رہنے اور کام کرنے کی جگہیں ہوگی۔ اس گاءوں میں سبزیاں بھی اگیں گی اور فصلیں بھی۔ دودھ دینے کے لیے گاءے، بھینسیں بھی ہوں گی، اور انڈوں کے لیے مرغی فارم بھی۔ یہاں اسکول، کالج، اور شفاخانے بھی ہوں گے۔ اس گاءوں کے حدود کے اندر ہی بجلی بنانے کا پلانٹ بھی ہوگا؛ بارش کے پانی کو جمع کر کے اسے استعمال کے قابل بنانے کا بھی نظام ہوگا۔ غرض کہ یہ ایک ایسی جگہ ہوگی جو اپنے طور پہ یہاں بسنے والوں کی ممکنہ حد تک ضروریات پوری کر سکے گی۔ کراچی میں رہنے والا کوءی شخص شہر سے دور اس نءی بستی میں کیوں رہنا چاہے گا؟ اس لیے کیونکہ اس جگہ پہ کسی بھی شخص کو ایک اعلی معیار زندگی ملے گا، ایک ایسی جگہ جو محفوظ ہوگی اور جہاں بجلی پانی کا نظام پاکستان کے بجلی پانی کے نظام سے کہیں بہتر طور پہ چل رہا ہوگا؛ ایک ایسی جگہ جہاں قانون کی حکمرانی ہوگی۔ کراچی میں رہنے والا ایک شخص اس نءی آبادی میں ان ہی وجوہات کی وجہ سے آنا چاہے گا جن وجوہات کی وجہ سے وہ کینیڈا کا رہاءشی ویزا حاصل کرنا چاہتا ہے۔
جب کسی معاشرے میں لوٹ مار بڑھ جاءے تو وہاں متمول لوگ قلعہ بند [گیٹڈ] آبادیوں میں رہنا شروع ہو جاتے ہیں۔ پاکستان میں بھی قلعہ بند کالونیوں کا رواج بڑھ رہا ہے مگر ان تمام نءی آبادیوں میں داخلے کی شرط صرف پیسہ ہے۔ مذکورہ بالا آبادی میں ایسا نہیں ہے، وہاں داخلے کی شرط خواندگی ہے اور مستند اراکین کے علاوہ کوءی شخص اندر داخل نہیں ہو سکتا۔ یعنی اگر اس آبادی کے کسی باسی کا ملاقاتی اندر آبادی میں آنا چاہتا ہے تو اس ملاقاتی کے لیے بھی آبادی کا رکن ہونا ضروری ہے۔ اس آبادی کے اراکین بہت بڑی تعداد میں ہیں جن میں سے کم ہی لوگ اندر نءی آبادی میں رہتے ہیں۔ اس آبادی کی چہاردیواری پہ پہرہ ہے اور اندر آنے اور باہر جانے کے لیے مخصوص دروازے ہیں جن پہ لوگوں کی رکنیت کی تصدیق کی جاتی ہے۔
کیا اس آبادی سے متعلق آپ کے کچھ تحفظات ہیں؟ کیا آپ اس آبادی میں رہنا چاہیں گے؟ ہمیں اپنے آراء سے ضرور مطلع کیجیے۔

Labels:


Saturday, February 18, 2012

 

تعلیم، شعور، اور اچھی حکومت




فروری چھ، دو ہزار بارہ

مواصلات کے شعبے میں انٹرنیٹ ایک انقلاب ہے۔ اور یہ ایک ایسا انقلاب ہے جو دوسرے بہت سے شعبوں پہ اثرانداز ہو رہا ہے اور ان شعبوں میں گہری تبدیلیوں کا نقیب ہے۔ حال میں عرب دنیا میں آنے والی سیاسی تبدیلیوں کا بھی انٹرنیٹ کے انقلاب سے گہرا تعلق ہے۔ اور ایک انقلاب جس کی راہ بہت سے دیوانوں کی طرح یہ فدوی بھی دیکھ رہا ہے، دنیا کے موجودہ معاشی ڈھانچے میں مساوات قاءم کرنے سے متعلق ہے۔ دنیا کے مختلف خطوں کے درمیان معاشی عدم مساوات نوآبادیاتی نظام سے گہری ہوءی ہے۔ مگر جہاں نو آبادیاتی نظام نے یورپی قوتوں کو فاءدہ پہنچا کر دوسرے خطوں کو غربت کی طرف دھکیل دیا، وہیں نوآبادیاتی نظام کا ایک بلاواسطہ فاءدہ یہ ہوا کہ دنیا آپس میں بندھ گءی۔ نہ صرف یہ کہ یورپی طاقتوں کی زبانوں نے عالمگیر رابطے کی زبانوں کا کام دیا، بلکہ نوآبادیاتی نظام میں ہونے والی اکھاڑ پچھاڑ سے دنیا کے مختلف خطوں کو ایک دوسرے سے گہری آگہی ہو گءی۔ اور اب مواصلات کی ٹیکنالوجی اس مقام پہ پہنچ گءی ہے کہ آپ گھر بیٹھے دنیا کے کسی بھی خطے کی خبر رکھ سکتے ہیں۔ نوآبادیاتی نظام ختم ہوا تو نوآبادیوں کا نظام مقامی قیادت کے حوالے کیا گیا۔ اور اکثر صورتوں میں یہ قیادت نااہل ثابت ہوءی۔ چنانچہ ایشیا، افریقہ، اور جنوبی امریکہ میں ایسے بہت سے ممالک ہیں جہاں پے درپے نااہل حکومتوں نے ان ممالک کا بیڑا غرق کر دیا ہے۔ پسماندہ ممالک میں بسنے والے پڑھے لکھے لوگ جب دیکھتے ہیں کہ دوسری جگہوں پہ ان ہی جیسے تعلیمی پس منظر کے لوگ بہت اچھی زندگی گزار رہے ہیں تو ترقی پذیر ممالک کے وہ لوگ بے چینی کا شکار ہوتے ہیں۔ وہ بجا طور پہ سوچتے ہیں کہ ہم ایسے کیوں نہیں ہیں جیسے یہ دوسرے لوگ ہیں۔ ترقی پذیر ممالک کو ترقی یافتہ ممالک کی سطح خوشحالی تک لانے کے لیے جہاں ہر جگہ اچھی اور ذمہ دار حکومت کی ضرورت ہے، وہیں ضرورت اس بات کی ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو کم سے کم وساءل استعمال کرتے ہوءے تعلیم دی جاءے۔ اس شعبے میں بھی انٹرنیٹ ایک انقلابی کام کر رہا ہے۔ تذکرہ ہے خان اکیڈمی کا۔ تو بات یہاں سے شروع ہوتی ہے کہ ایک بہن نے اپنے بھاءی سے شکایت کی کہ اس کا بچہ پڑھاءی میں دل نہیں لگا رہا اور ماموں کو چاہیے کہ پڑھاءی میں بھانجے کی مدد کرے۔ بھاءی ایک شہر میں تھا اور بہن دوسرے شہر میں۔ بھاءی نے کہا کہ میں اپنے بھانجے کو پڑھانے کے لیے ٹیکنالوجی کا سہارا لوں گا۔ پھر بھاءی نے یہ کام شروع کیا کہ بھانجے کو جو سبق پڑھانا ہوتا اس کی ویڈیو بناتا اور اسے یوٹیوب پہ چڑھا دیتا۔ یوٹیوب پہ دستیاب ہونے کی وجہ سے دوسرے شہر میں موجود بھانجا یہ ویڈیو دیکھ لیتا۔ سبق در سبق چلتے، وقت گزرنے کے ساتھ متفرق موضوعات پہ بہت سارے ویڈیو جمع ہو گءے اور ان تعلیمی ویڈیو کو دوسرے طلبا بھی شوق سے دیکھنے لگے۔ اور یوں خان اکیڈمی کی بنیاد پڑی۔ خان اکیڈمی ایک ایسی ویب ساءٹ ہے جہاں حساب، الجبرا، کیمیا، طبیعیات سے لے کر تاریخ اور معاشیات تک آپ کو بہت سے موضوعات پہ بنیادی معلومات کی ویڈیو ملیں گی۔ ان ویڈیو کو دیکھ کر آپ اپنے طور پہ تعلیم حاصل کر سکتے ہیں۔ بنگال سے نسلی تعلق رکھنے والے نوجوان سلمان خان نے ایسا کام کیا ہے کہ آج دنیا کے کونے کونے میں موجود طلبا سلمان خان کی بناءی ہوءی تعلیمی ویڈیو دیکھتے ہیں اور انہیں دیکھ کر ریاضی، طبیعیات، کیمیا، اور دوسرے علوم کی آگہی حاصل کرتے ہیں۔ سلمان خان کے کام کو شہرت ملی تو بہت سے ادارے ان کی مدد کو آگءے۔ کءی جگہ سے فرماءش ہوءی کہ اب ان ویڈیو کا ترجمہ انگریزی سے دنیا کی دوسری زبانوں میں کیا جاءے۔ ان ویڈیو کا اردو میں ترجمہ کرنے کے لیے خان اکیڈمی نے کوشش فاءونڈیشن سے رابطہ کیا۔ کوشش فاءونڈیشن ایک ایسا فلاحی ادارہ ہے جس کی بنیاد پچھلی صدی کے آخری سال پڑی تھی۔ سان فرانسسکو بے ایریا میں رہنے والے کچھ لوگوں نے محسوس کیا تھا کہ وہ جس معاشرے سے آءے ہیں، اس کو کسی نہ کسی طرح لوٹانا ان کا فرض ہے۔ کوشش فاءونڈیشن پاکستان میں تعلیم کے شعبے میں کام کر رہی ہے۔ کوشش فاءونڈیشن کے روح رواں سہیل اکبر ہیں جن کی شخصیت بے انتہا متاثر کن ہے۔ کوشش فاءونڈیشن کے بہت سے رضاکاروں میں فدوی بھی شامل ہے اور حال میں خان اکیڈمی کے ویڈیو کا اردو میں ترجمہ کرنے کے کام کے سلسلے ہی میں پاکستان گیا تھا۔ پہلے مرحلے میں کل ہزار ویڈیو کا ترجمہ کرنا ہے۔ اب تک تین سو کے لگ بھگ ویڈیو کا ترجمہ ہو چکا ہے اور یہ ویڈیو یو ٹیوب پہ موجود ہیں۔ پاکستان میں بہت سے لوگوں کے پاس انٹرنیٹ کی سہولت نہیں ہے۔ ایسی صورت میں دوسرے فلاحی اداروں کے ساتھ مل کر تعلیمی ویڈیو گاءوں گاءوں پہنچانے کا کام کرنا ہوگا۔ قصہ مختصر یہ کہ جہاں تعلیم اور شعور بلند کرنے کے سلسلے میں کام ہو رہا ہے وہیں ملک میں ذمہ دار اور منصف حکومت قاءم کرنے کے لیے بھی کام کرنا ہوگا۔ معاشرے میں عام تعلیم، لوگوں میں جدید دنیا کی سوجھ بوجھ، اور ملک میں اچھی حکومت وہ ناگزیر عناصر ہیں جو امیر اور غریب ممالک کے درمیان معاشی گہراءی کم اور ختم کرنے میں معاون ہوں گے۔

Labels:


 

قارورے پہ شہد کا لیبل






جنوری انتیس، دو ہزار بارہ

میں عمرانیات کا طالب علم ہونے کے ناتے بدلتی ہوءی معاشرتی ترجیحات کو غور سے دیکھتا ہوں۔ لوگوں کے نزدیک کیا قابل عزت ہے، لوگ کن باتوں سے مرعوب ہوتے ہیں، اور کس قسم کے رویوں کی تقلید کرنا چاہتے ہیں، یہ باتیں میرے لیے اہم ہیں۔ ہر دم بدلتی معاشرتی ترجیحات میں مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ لوگ کس قدر آسانی سے محض لیبل سے بے وقوف بن جاتے ہیں۔ قارورے کی بوتل پہ شہد کا لیبل لگا ہو تو ایسے لوگ کم ہوتے ہیں جو گہراءی سے یہ جاننے کی کوشش کریں کہ بوتل کے اندر واقعی شہد ہے یا نہیں۔ زیادہ تر لوگ محض لیبل دیکھ کر مطمءن ہو جاتے ہیں۔ چند مثالوں سے یہ بات واضح کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ پاکستان میں بہت سے لوگ اب تک یہ خیال کرتے ہیں کہ جس شخص کی داڑھی ہے اور وہ صوم و صلوۃ کا پابند ہے، یقینا ایماندار ہوگا۔ سنہ پچاس کی دہاءی کی بات ہے، کراچی میں کسی وقت شکر کی کال پڑ گءی۔ ہمارے دادا جس مسجد میں باقاعدگی سے نماز پڑھنے جاتے تھے وہیں ایک شخص آتا تھا جس نے باتوں باتوں میں تذکرہ کیا کہ وہ شکر کا انتظام کرسکتا ہے۔ اتنا کافی تھا کہ ایک پابند نماز شخص کہہ رہا تھا کہ اگر اسے رقم دی جاءے تو وہ شکر کا انتظام کر دے گا۔ چنانچہ اسے رقم دے دی گءی۔ رقم لینے کے بعد وہ اس مسجد میں کبھی نظر نہیں آیا۔ ہمارے گھر والے قارورے کی بوتل پہ شہد کے لیبل سے بے وقوف بن گءے۔ مگر شاید یہ بات ان کو سمجھ میں آگءی کہ دکھاوے کے تقوی کا ایمانداری سے کوءی خاص تعلق نہیں ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ میں کراچی میں اپنا مشاورتی انجینءیرنگ کاروبار بڑھانے کی نیت سے پی آءی اے پہنچا۔ پی آءی اے کءی ترقیاتی کاموں میں پیسہ لگا رہی تھی اور مجھے خیال تھا کہ شاید ڈیزاءن کا کچھ کام مجھے بھی مل جاءے۔ اسی درمیان کسی عزیز نے مجھے خبردار کیا کہ پی آءی اے میں 'کھانے پلانے' کا بہت رواج ہے، اگر بالفرض محال مجھے کوءی پراجیکٹ مل بھی گیا تو اس میں ایک مخصوص شرح فیصد ورکس ڈیپارٹمنٹ کی طے کی جاءے گی۔ میں حیرت زدہ تھا کہ جن لوگوں سے بات چیت کر رہا ہوں ان میں سے کون دھڑلے سے ایسی بات کہے گا۔ مجھے خیال ہوا کہ میں پی آءی اے میں جن لوگوں سے مل رہا ہوں، ان میں سے جو ایک شخص باریش ہے اور کچھ کچھ دیر بعد نماز کے لیے دوڑتا ہے، یقینا وہ شخص مجھ سے رشوت کی بات کرے گا۔ اور بالاخر ایسا ہی ہوا۔ میں پی آءی اے سے آگے بڑھ گیا مگر میرے دل میں قارورے کی بوتل پہ شہد کے لیبل والی بات اور پختہ ہو گءی۔ میں کل ہی واپس بے ایریا پہنچا ہوں۔ میں نے اب کی بار پاکستان کے سفر میں بدلتی معاشرتی ترجیح کا ایک اور نمونہ دیکھا۔ مجھ پہ واضح ہوگیا کہ پاکستان میں انگریزی کا زور بڑھ رہا ہے اور ساتھ ہی معاشرے میں یہ خیال خام بھی تقویت پا رہا ہے کہ انگریزی میں گفتگو کرنا احسن ہے۔ یہ خیال عام ہے کہ اگر کوءی شخص انگریزی جانتا ہے تو اس کا مطلب محض یہ نہیں ہے کہ مذکورہ شخص ایک دوسری زبان جانتا ہے بلکہ انگریزی بولنا آپ کی قابلیت، آپ کا علم، آپ کی اعلی جمالیاتی حس ظاہر کرتا ہے۔ انگریزی بولنا روشن خیالی ظاہر کرتا ہے، جدید طرز فکر کا اظہار ہے۔ انگریزی میں جو بات کہی جاتی ہے وہ دو ٹوک ہوتی ہے اور سچ ہوتی ہے۔
اس بدلتی معاشرتی ترجیح میں ایک دفعہ پھر لوگوں کو بے وقوف بنانا آسان ہوگیا ہے۔ قارورے پہ شہد کا لیبل لگا دیجیے، پھر تماشہ دیکھیے۔ ہر قسم کا جھوٹ ، فراڈ انگریزی میں کیجیے، لوگ آسانی سے آپ کی بات کا یقین کر لیں گے۔ مجھے خیال ہوتا ہے کہ منصور اعجاز پورے پاکستان کو بے وقوف بنانے میں اسی لیے کام ہوگیا کیونکہ وہ انگریزی میں لکھتا اور بولتا ہے۔ کہتے ہیں کہ آپ تمام لوگوں کو کچھ دیر تک بے وقوف بنا سکتے ہیں، اور کچھ لوگوں کو ہر وقت بے وقوف بنا سکتے ہیں، مگر آپ تمام لوگوں کو ہر وقت بے وقوف نہیں بنا سکتے۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ بات واضح ہو گءی ہے کہ منصور اعجاز ایک ایسا فراڈیا ہے جس کا واحد مقصد زیادہ سے زیادہ شہرت حاصل کرنا ہے۔ افسوس بس اتنا ہے کہ میموگیٹ نامی فراڈ اسکینڈل میں منصور اعجاز نے یہ شہرت ایک غریب ملک کا بہت سا وقت اور بے انتہا پیسہ ضاءع کرا کر حاصل کی ہے۔

Labels: ,


Friday, February 17, 2012

 

بڑے شہروں میں آلودگی کے مساءل





جنوری تءیس، دو ہزار بارہ


بڑے شہروں میں آلودگی کے مساءل

علی حسن سمندطور

کہتے ہیں، سفر وسیلہ ظفر۔ واقعی ایسا ہی ہے۔ سفر سے فتح مندی کا ایک خوب صورت احساس وابستہ ہے۔ سفر میں آپ کے مشاہدات بڑھ جاتے ہیں اور بہت سی باتیں جو ایک جگہ بیٹھے بیٹھے سمجھ میں نہیں آ رہی ہوتیں سمجھ میں آنا شروع ہو جاتی ہیں۔ عمرانیات کے طالب علم ہونے کے ناتے میں جب سفر میں ہوتا ہوں تو لوگوں کے ایک دوسرے سے تعلق کو غور سے دیکھتا ہوں۔ میں ان معاشروں کو دیکھتا ہوں جو نت نءی ایجادات کا بطن ہیں۔ کہ ان معاشروں میں لوگ اپنے بدلتے ہوءے حالات سے کیسے نبرد آزما ہو رہے ہیں۔ پھر ان معاشروں کو بھی دیکھتا ہوں جو جدید دور کے شانہ بشانہ نہیں ہیں مگر جہاں جدید معاشروں سے نءی ٹیکنالوجی پہنچ جاتی ہے اور وہاں رہنے والے لوگ اس نءی ٹیکنالوجی کو اپنانے کے عمل سے گزرتے ہیں۔ آپ اس وقت جہاں بھی موجود ہیں، اپنے آس پاس نظر اٹھا کر دیکھیے: بجلی کے قمقمے، فون، الیکٹرانک آلات، عمارات کو گرم ٹھنڈا رکھنے کی ٹیکنالوجی۔ یہ سب ایجادات ایسے ملکوں میں ہوءی ہیں جن کی آبادیاں دنیا کی آبادی کا بہت چھوٹا حصہ ہیں۔ کوءی بھی نءی ٹیکنالوجی جب عام ہوتی ہے تو اس کی قبولیت اور اس کی ترویج کے مراحل سامنے آتے ہیں۔ اس نءی ٹیکنالوجی سے وہ لوگ سب سے آسانی سے نبردآزما ہوتے ہیں جنہوں نے یہ ٹیکنالوجی بناءی ہوتی ہے۔ اس ٹیکنالوجی سے دور سے دور بسنے والے لوگوں کے لیے یہ ٹیکنالوجی اجنبی ہوتی ہے اور انہیں اسے من حیث الگروہ اپنانے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بہت سارے لوگوں کا بڑے شہروں کی صورت میں ساتھ رہنا بھی ایک نسبتا نیا انداز زندگی ہے۔ لاکھوں کروڑوں لوگ کسی شہر میں ساتھ رہیں گے تو ان کے لیے پینے کے پانی کا منصفانہ انتظام کیسے کیا جاءے گا۔ پانی کو پاءپ سے ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانے کی جدید ٹیکنالوجی کو یورپ نے موجودہ نقطہ عروج تک پہنچایا ہے۔ مگر پانی کی ترسیل میں انصاف کا براہ راست تعلق جدید معاشرے میں منصف حکومت کے قیام سے ہے۔ اور یوں یہ سب چیزیں آپس میں جڑی ہوءی ہیں۔ ترقی پذیر ممالک میں جب منصف حکومت کا قیام ہی عمل میں نہیں آپاتا تو دوسرے معاملات بھی منصفانہ نہیں چل پاتے۔ ایک شخص کا دوسرے لوگوں کے ساتھ مل کر رہنا اس نیت سے ہوتا ہے کہ اس طرح ساتھ چلنے میں اس کی زندگی آسان ہوجاءے گی، مگر جہاں معاشرے میں مختلف سطح پہ انصاف نہ ہو، ایک انسان دوسرے انسان کے لیے ایک مصیبت بن جاتا ہے۔
اب آپ کراچی کی مثال لیں۔ کچھ کچھ دنوں بعد خبر آتی ہے کہ فلاں علاقے میں پینے کے پانی میں گٹر کا پانی شامل ہو گیا ہے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ ہونا تو یہ چاہیے کہ شہر کے آبی نظام پہ ایک پمپ ہو جو پریشر سے پانی پاءپ میں روانہ کر رہا ہو۔ اسی پریشر کی وجہ سے پانی ہر گھر میں پہنچ جاءے۔ اگر اس پریشر والے پاءپ میں کہیں لیک بھی ہوگا تو پریشر کی وجہ سے صاف پانی پریشر والے پاءپ سے باہر نکلے گا، پاءپ کے اندر کچھ نہ جاءے گا۔ اب آپ اس صورتحال پہ غور فرماءیں کہ پاءپ میں پانی کم ہے اور پانی کے صارفین زیادہ۔ ہر گھر کی خواہش ہے کہ شہر کے فراہمی آب کے نظام سے جو تھوڑا بہت پانی پاءپ میں آرہا ہے وہ پانی اس گھر تک پہنچ جاءے۔ چنانچہ ہر گھر میں ایک سکشن پمپ لگا ہے جو پانی کو اپنی طرف کھینچ رہا ہے۔ اس کھینچا تانی کی وجہ سے پاءپ میں جہاں مثبت پریشر ہونا چاہیے تھا، اب منفی پریشر ہوگیا۔ اب اگر کسی وجہ سے گٹر کا پاءپ لیک کررہا ہے اور گٹر کا یہ پانی ، صاف پانی کے پاءپ کے پاس موجود ہے اور صاف پانی کے پاءپ میں ہلکا سا بھی لیک ہے تو گٹر کا یہ پانی منفی پریشر سے کھنچ کر صاف پانی کے پاءپ میں چلا جاءے گا۔ اسی وجہ سے کراچی میں صاف پانی میں گندا پانی ملنے کے اکثر واقعات بارشوں کے موسم میں سننے میں آتے ہیں جب بارش کا پانی رسنے والے گٹر کے پانی کو صاف پانی کے پاءپ کے قریب تر پہنچا دیتا ہے۔
لوگوں کے ایک ساتھ رہنے کی صورت میں کوڑے کی تلافی کا معاملہ بھی سامنے آتا ہے۔ مغرب سے نکلنے والی نءی ترین ٹیکنالوجی مشرق میں پہنچ رہی ہے اور جن معاشروں میں کوڑے کی تلافی کا نظام فعال نہیں ہے وہاں پلاسٹک اور پیکجنگ کے کوڑے نت نءے مساءل کھڑے کر رہے ہیں۔ کراچی جیسے بڑے شہر میں میری معلومات کے مطابق کوءی ایسا فعال کوڑے کا نظام نہیں ہے کہ جمع ہونے والے کوڑے کو شہر سے باہر لے جا کر زمین دوز کیا جاءے۔ چنانچہ اکثر جگہ کوڑے کی تلافی اسے آگ لگا کر کی جاتی ہے۔ وہ کوڑا جو پہلے زمین پہ پڑا بدنما لگ رہا تھا اور تعفن کا منبا تھا اب جل کر فضاءی آلودگی میں بدل جاتا ہے اور دور دور بسنے والوں کے پھیپھڑوں میں جگہ بناتا ہے۔
کراچی میں فضاءی آلودگی کی دو اور بڑی وجوہات ٹریفک اور شہر کے درمیان موجود فیکٹریاں ہیں۔ شہر کی سڑکوں پہ جو گاڑیاں دوڑ رہی ہیں ان کی جانچ کا کوءی فعال نظام نہیں ہے۔ جو گاڑی جتنا چاہے گاڑھا دھواں چھوڑے، اسے پوچھنے والا کوءی نہیں ہے۔ اسی طرح اربنگ پلاننگ کا نظام فعال نہیں ہے کہ جس میں خیال رکھا جاءے کہ دھواں اڑانے اور شور مچانے والی فیکٹریاں رہاءشی علاقوں سے بہت دور ہوں۔۔
پھیلتی آبادیوں کے ساتھ ہوا اور پانی کی آلوگی بڑے مساءل ہیں جنہیں سوچ سمجھ سے اور انتظام سے حل کیا جا سکتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے لوگوں کو اس بارے میں آگہی دی جاءے۔ وہ گہراءی سے سمجھ سکیں کہ ان کے مساءل کے ماخذ کیا ہیں، یہ جان سکیں کہ دنیا کے دوسرے خطوں میں ان ہی مساءل سے دوسرے لوگ کیسے نمٹ رہے ہیں، اور اپنے اندر یہ اعتماد پیدا کر سکیں کہ وہ خود منظم ہو کر، مل بیٹھ کر، ساتھ کام کرنے سے اپنے مساءل حل کرنے کے اہل ہیں۔

Labels:


Thursday, February 16, 2012

 

رنگون میں لکھے جانے والے چند خیالات






جنوری آٹھ، دو ہزار بارہ



داڑھی والا وہ شخص بہت سنجیدہ تھا۔ اس کا نام محمد خان تھا۔ اس سے میری بات چیت اردو میں ہو رہی تھی۔ میں خوش تھا کہ مجھے ایک ایسا مقامی شخص مل گیا تھا جو میری بات سمجھ سکتا تھا۔ محمد خان نے بتایا کہ وہ پٹھان ہے۔ لنگی پہننے والا، مستقل پان کھانے والا پٹھان۔ وہ برما ہی میں پیدا ہوا تھا اور اسی وجہ سے مقامی زبان روانی سے بولتا تھا۔ اس نے اردو بولنا کہاں سے سیکھی؟ اپنے والد سے، اس نے جواب دیا۔ تمھارے والد پشتو بولتے تھے؟ نہیں، ان کی پیداءش بھی برما کی تھی مگر وہ اردو بولتے تھے، جواب ملا۔ انگریز کے راج میں پٹھان دور دو پھیل گءے اور اتنے سال گزرنے کے بعد بھی اپنی پہچان پٹھان ہی بتاتے ہیں۔ لوگ کس طرح اپنی پہچان بناتے ہیں، کس پہچان پہ شرمندہ ہوتے ہیں، اور کس پہچان پہ فخر کرتے ہیں، میں یہ ساری باتیں دیر تک سوچتا رہا۔ میں محمد خان کے ساتھ ہی بہادر شاہ ظفر کے مقبرے پہ پہنچا۔ بہادر شاہ ظفر کی قبر پہ پہنچ کر دل کی ایک عجیب کیفیت ہوتی ہے۔ بابر سے لیکر عالمگیر تک کے جاہ و جلال کا خیال آتا ہے۔ انہوں نے کتنی بڑی بادشاہت قاءم کی اور کیسی کیسی فتوحات کیں مگر پھر وقت بدلا اور ان کی اولاد انگریز کے تابع ہو گءی اور ۱۸۵۷ کی جنگ کے بعد انگریز کو اندازہ ہوا کہ کسی عظیم شاہی سلسلے کے افراد کو وظیفے پہ قاءم رکھنا احمقانہ کام ہے، باغیوں کو عظمت رفتہ کی تلاش ہوتی ہے اور اس تلاش میں وہ ایک بوڑھے براءے نام بادشاہ کے پیچھے بھی جمع ہونے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ یہ نکتہ سمجھنے پہ انگریزوں نے آخری مغل تاجدار کو رنگون کے لیے روانہ کر دیا۔ ظفر قسمت سے شاکی رہے کہ انہیں اپنی دھرتی میں دفن ہونے کے لیے دو گز زمین نہ ملی۔ ظفر کو یہ بتانے والا کوءی نہ تھا کہ اپنی مرضی کی جگہ پہ دفن ہونے کے لیے کام کرنا ہوتا ہے۔ گلچھرے اڑانے اور شاعری کرنے سے بعد میں آنے والے لوگوں کو پڑھنے کے لیے اچھا مواد تو مل سکتا ہے مگر اس آرام پسند زندگی سے اپنی پسند کی چیزیں بشمول دفن ہونے کے لیے جگہ حاصل نہیں کی جا سکتی۔ پرانے وقتوں میں پہلے تلوار کے زور پہ حکومت قاءم کی جاتی تھی اور پھر انصاف کے استعمال سے اپنی بادشاہت کی بقا حاصل کی جاتی تھی۔ آج جمہور کا دور ہے۔ آج کے دور میں مضبوط حکومت قاءم کرنے کے لیے مضبوط عوام کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر عوام پڑھی لکھی، سمجھدار ہے، تو معمولی وساءل استعمال کرتے ہوءے کسی بھی ملک کو مضبوط بنایا جا سکتا ہے۔

Labels:


Wednesday, February 15, 2012

 

کراچی معاملات








جنوری ایک، دو ہزار بارہ



کل رات مجھے جلدی نیند آگءی تھی مگر پھر زوردار فاءرنگ کی آواز سے آنکھ کھل گءی۔ رات کے بارہ بجے تھے اور کراچی نءے سال کا استقبال اندھادھند فاءرنگ سے کر رہا تھا۔ یہ کون لوگ ہیں جو آدھی رات میں اسلحہ استعمال کر رہے ہیں؟ کیا ان کی بندوقوں کا رخ آبادی سے ہٹ کر ہے؟ کیا اس بات کا امکان ہے کہ کوءی معصوم اس اندھادھند فاءرنگ کا نشانہ بن جاءے گا؟ میں نے بستر پہ لیٹے لیٹے سوچا۔ صبح مجھے ان سوالات کے جوابات مل گءے۔ نءے سال کے استقبال میں کی جانے والی فاءرنگ سے تین لوگ ہلاک ہوءے تھے۔ یوں تو دو کروڑ لوگوں کے شہر میں تین لوگوں کا ہلاک ہونا معمولی بات لگتی ہے مگر ان تینوں میں اگر آپ کا جاننے والا کوءی فرد ہو تو آپ کے جذبات اور ہوتے ہیں۔ کل خوشی کی فاءرنگ میں مارے جانے والوں میں ہمارے ایک عزیز کا سترہ سالہ لڑکا بھی شامل تھا۔ وہ نوجوان ایک اچھا طالب علم تھا۔ فاءرنگ کی آواز سن کر وہ اشتیاق میں بالکونی میں گیا اور وہیں ایک گولی سینے میں کھا کر گر پڑا۔ آج سال کے پہلے روز کا استقبال اس کے گھر والوں نے اپنے بچے کی تدفین سے کیا۔
کراچی ایک حیرت انگیز شہر ہے۔ اس کی آبادی مستقل بڑھ رہی ہے اور آبادی بڑھنے کے ساتھ جراءم بھی بڑھتے جا رہے ہیں مگر تعجب ہے کہ لوٹ مار، قتل و غارت گری کے مستقل واقعات کے باوجود لوگ بنیادی سبق نہیں سیکھ رہے۔ کیا آپ کو یہ جان کر حیرت نہ ہوگی کہ کراچی میں اکثر لین دین اب تک نقد میں ہوتا ہے۔ کچھ روز پہلے ایک ضیافت میں مجھے کراچی کے ایک بہت مشہور ریستوراں مدعو کیا گیا۔ وہ ریستوراں غالبا پاکستان کا سب سے مصروف ریستوراں ہے۔ اس دعوت میں بہت سے لوگ شریک تھے۔ کھانے کے بعد ایک لمبا چوڑا بل آیا جس کی اداءیگی نوٹوں کی گڈیوں سے کی گءی۔ اور یہ ریستوراں اسی طرح نقد پہ چل رہا ہے۔ اپنے ساتھ نقد لانے والے لٹنے کا خطرہ مول لینے کے لیے تیار ہیں اور ریستوراں چلانے والے بڑی بڑی نقد رقومات سے اپنے آڑھتیوں کا حساب کرنے کے لیے آمادہ ہیں۔ اور نقد سے متعلق خطرہ مول لینے کی بظاہر وجہ یہ ہے کہ کسی کے دیے ہوءے چیک پہ کسی کو اعتبار نہیں ہے اور اگر ریستوراں گاہکوں کو کریڈٹ کارڈ سے اداءیگی کرنے پہ آمادہ کرے تو ریستوراں کی آمدنی کاغذ پہ آجاءے گی اور پھر ٹیکس دینے کے جھمیلے میں پڑنا پڑے گا۔
یوں تو کراچی بظاہر ایک چلتا پھرتا فعال شہر نظر آتا ہے مگر یہاں ہر دوسرے تیسرے شخص کے پاس اپنے لٹنے کی ایک کہانی موجود ہے۔ اسلحے کے زور پہ موباءل فون چھیننے کی وارداتیں عام طور پہ ہوتی ہیں۔ ہمارے ایک عزیز دو دفعہ اپنے لیپ ٹاپ کمپیوٹر سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ واضح رہے کہ اگر قانون نافذ کرنے والے ادارے چاہیں تو موباءل فون یا لیپ ٹاپ کی چوری کی قریبا ہر واردات کو حل کیا جا سکتا ہے۔ ہر موباءل فون اور لیپ ٹاپ کمپیوٹر مواصلات میں اپنا ایک مخصوص کوڈ استعمال کرتا ہے جس سے اس مخصوص آلے کی شناخت ہو سکتی ہے۔ چوری ہونے کے بعد جب یہ موباءل فون یا کمپیوٹر پہلی بار استعمال ہوگا تو اپنے جاءے استعمال کا پتہ دے دے گا۔
کراچی میں ڈکیتی کی وارداتیں بھی باقاعدگی سے ہوتی ہیں مگر اب تک سرویلینس کیمرے کا استعمال بہت کم ہے۔ ایک عزیز جو ابھی حال میں ڈاکوءوں سے لٹے ہیں بے چارگی سے کہہ رہے تھے کہ کوءی پستول آپ کی کنپٹی پہ رکھ دے تو آپ کر بھی کیا سکتے ہیں۔ ان سے عرض کیا کہ جس وقت کوءی اسلحہ لے کر آپ کے سامنے کھڑا ہے تو وہ لمحہ تو آپ کی کمزوری کا لمحہ ہے اور آپ یقینا اس وقت کچھ خاص نہیں کر سکتے، بلکہ کمزوری کے اس معاملے میں تو مزاحمت کا خیال بھی دل سے نکال دیں، مگر واقعے سے پہلے اور واقعے کے بعد آپ بہت کچھ کر سکتے ہیں۔ واقعے سے پہلے ایسے انتظامات کریں کہ ڈاکو آپ کی طرف بڑھتے ہوءے سو بار سوچیں۔ مثلا اگر آپ نے محلے کی سطح پہ ایسے انتظامات کیے ہوں کہ بہت سے کیمروں کی آنکھیں ہر آنے جانے والے پہ نظر رکھیں اور اس معلومات کو طویل عرصے تک محفوظ رکھیں تو اس بات کا امکان ہے کہ اسی فی صد لٹیرے آپ کی طرف بڑھتے ہوءے ڈریں گے۔ بیس فی صد ایسے لٹیرے جو یا تو بے وقوف ہیں کہ انہیں پتہ ہی نہیں کہ ان کی تصاویر مستقل اتاری جا رہی ہیں یا ایسے دیدہ دلیر ہیں کہ انہیں اس شناخت کی ذرا پرواہ نہیں، آپ کی حفاظتی تراکیب کے باوجود اپنا کام کریں گے، مگر کم از کم آپ اسی فی صد لٹیروں سے تو محفوظ رہے۔ پھر جب کبھی ایسا ناپسندیدہ واقعہ آپ کے ساتھ ہو جاءے تو آپ خاموش نہ بیٹھیں کیونکہ جرم کے خلاف خاموش رہنا جرم کی معاونت کرنے کے مترادف ہے۔ جراءم پیشہ افراد کی یہی تو خواہش ہوتی ہے کہ وہ لوٹ مار کرتے جاءیں اور کوءی چوں چرا نہ کرے۔ آپ ان مجرموں کی ایسی خواہش پوری کر کے ان کے لیے اگلی واردات کرنے کی راہ کیوں آسان کرنا چاہیں گے؟

Labels:


This page is powered by Blogger. Isn't yours?