Wednesday, September 28, 2011

 

گفتگو






ستمبر پچیس، دو ہزار گیارہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم



سان فرانسسکو بے ایریا کا علاقہ دو معیاری تعلیمی اداروں کے وجہ سے اپنی مثال آپ ہے۔ کھاڑی کے ایک طرف جامعہ اسٹینفرڈ ہے اور دوسری طرف جامعہ برکلی۔ اسٹینفرڈ ساءنس سے متعلق شعبوں میں آگے آگے ہے تو برکلی زبان اور دل و جذبات کے معاملے میں۔ جامعہ برکلی میں جنوبی ایشیا کے متعلق جاننے اور اس علاقے کی مختلف فکری تحریکوں پہ تحقیق کرنے کے کءی مواقع موجود ہیں۔ یہ مواقع برکلی کے شعبہ براءے جنوبی اور جنوب مشرقی ایشیا، اور جنوبی ایشیا تعلیمی سینٹر، سینٹر فار ساءوتھ ایشین اسٹڈیز، فراہم کرتے ہیں۔ جنوبی ایشیا سینٹر کو دو انتہاءی متحرک خواتین چلاتی ہیں۔ ایک راکا رے صاحبہ ہیں جو اس تعلیمی مرکز کی منتظمہ اعلی ہیں اور دوسری پنیتا کالا صاحبہ ہیں جن کا عہدہ پروگرام ڈاءریکٹر کا ہے۔ اس تعلیمی مرکز نے گفتگو نامی ایک نیا سلسلہ شروع کیا ہے جس کا مقصد اردو اور پاکستان سے متعلق موضوعات کو زیر بحث لانا ہے۔ اس سلسلے کی پہلی محفل اتوار، ستمبر پچیس کے روز منعقد ہوءی۔ پروگرام کا موضوع تھا فیض احمد فیض کی شخصیت اور ان کی شاعری، اور مہمان خصوصی فیض کی صاحبزادی سلیمہ ہاشمی صاحبہ تھیں۔ تقریب میں دو سو کے قریب لوگوں نے شرکت کی۔ محفل کا آغاز راکا رے کے تعارفی کلمات سے ہوا۔ تقریب کی نظامت شعبہ براءے جنوبی اور جنوب مشرقی ایشیا کے پروفیسر مونس فاروقی نے انجام دی۔ برکلی میں اردو زبان کے معلم قمر جلیل صاحب نے سنہ چوراسی کا وہ واقعہ بیان کیا جب فیض برکلی کی دعوت پہ وہاں آءے تھے۔ مشی گن اسٹیٹ یونیورسٹی کے پروفیسر شان پیو نے ایک مقالہ پڑھا جس میں فیض کے فن کا مقابلہ ن م راشد کے فن سے کیا گیا تھا۔ مہمان خصوصی یعنی سلیمہ ہاشمی کا تعارف شعبہ اینتھروپولوجی کی پروفیسر صبا محمود نے کیا اور پھر صبا محمود اور سلیمہ ہاشمی صاحبہ کے درمیان ایک گفتگو کا آغاز ہوا جس سے حاضرین کو فیض احمد فیض کی شخصیت کو قریب سے جاننے کا موقع ملا۔ سلیمہ ہاشمی نے اپنے ابا کے بارے میں بتایا کہ فیض نہایت ٹھنڈے مزاج کے شخص تھے۔ بچوں کی تعلیم اور دوسرے اہم معاملات کا اختیار ماں کے پاس تھا جب کہ باپ اس سلسلے میں بے حد پرسکون واقع ہوا تھا۔ سلیمہ ہاشمی نے بتایا کہ وہ بچپن میں کبھی سردرد اور کبھی پیٹ میں درد کا بہانہ کرتی تھیں تاکہ انہیں اسکول نہ جانا پڑے۔ اگر کبھی وہ اس طرح کا بہانہ کرتیں تو ماں سلیمہ سے کہتیں کہ جاءو اپنے ابا سے بات کرو۔ وہ اپنے ابا سے کہتیں کہ میں اسکول نہیں جانا چاہتی تو ابا نہایت اطمینان سے جواب دیتے، " تو نہ جاءو۔" اگر سلیمہ ہاشمی کبھی اپنے ابا کو بتاتیں کہ وہ حساب کے امتحان میں فیل ہو گءی ہیں تو ابا جواب دیتے، "کوءی بات نہیں۔ حساب میں تو ہم بھی فیل ہو جاتے تھے۔"
سلیمہ ہاشمی نے فیض احمد فیض کے بارے میں بتایا کہ وہ انسان دوست تھے اور لوگوں کو اپنے اور ان کے قومی تعلق سے بلند ہو کر دیکھتے تھے۔ اسی لیے انہیں جہاں سنہ سینتالیس کے واقعات پہ افسوس تھا وہیں سنہ اکہتر کے کشت و خون نے نہایت پرملال کر دیا تھا۔ سلیمہ ہاشمی نے اپنے ابا کے بارے میں بتایا کہ وہ نہایت درد سے لکھتے تھے اور فیض نے اپنے بارے میں یہ کہا بھی تھا کہ، "اردو کے بہت سے شاعر بہت اچھے ہیں مگر جس کرب اور تکلیف کی کیفیت سے گزر کر میں شعر کہتا ہوں دوسرے ایسا نہیں کرتے۔"
سلیمہ ہاشمی نے بتایا کہ ماں کے غیرملکی ہونے کی وجہ سے اکثر ان کی ماں سے یہ سوال کیا جاتا کہ کیا وہ فیض کی شاعری سمجھتی ہیں۔ ایلس فیض جواب دیتیں کہ وہ شاعری سمجھیں یا نہ سمجھیں، شاعر کو اچھی طرح سمجھتی ہیں۔
برکلی میں سول انجینءیرنگ کے پروفیسر انل چوپڑا نے فیض کی نظم 'رقیب سے' پیش کی۔ حمیدہ بانو چوپڑہ صاحبہ نے فیض کی دو نظمیں 'دعا' اور 'شیشوں کا مسیحا کوءی نہیں' سنا کر حاظرین محفل کو محظوظ کیا۔ بے ایریا کے ممتاز شاعر تاشی ظہیر نے 'نذر فیض' کے عنوان سے اپنا منظوم خراج عقیدت پیش کیا۔ ایک مختصر وقفے کے بعد سلیمہ ہاشمی نے سلاءڈ کی مدد سے ایک مقالہ پیش کیا جس میں جنوبی ایشیا کے آرٹ پہ فیض کی شاعری کا اثر واضح کیا گیا تھا۔ سلیمہ ہاشمی کے مقالے کے اختتام پہ سوال و جواب کا ایک دور ہوا۔ تقریب کا اختتام فیض کی شاعری کی گاءکی سے ہوا۔ انوپما چندراتریا صاحبہ نے 'دشت تنہاءی' سناءی؛ ارم مشرف نے 'مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ' گاءی، ان کے ساتھ گٹار پہ جہاں زیب شیروانی تھے؛ نندتا کالا دبرال نے 'ہم دیکھیں گے' سنا کر حاضرین محفل کے سامنے فیض کی اشتراکی شاعری کا کمال پیش کیا۔

 

جنگ میں دو طرف کی ہولناکیاں








ستمبر اٹھارہ، دو ہزار گیارہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم


ہم جب جنگ کی ہولناکی کی بات کرتے ہیں تو عموما ان لوگوں کا ذکر کرتے ہیں جن پہ گولی اور بم برساءے جاتے ہیں۔ سب سے زیادہ نقصان میں تو وہ لوگ ہیں جو جنگ میں ہلاک ہو جاتے ہیں۔ جو زخمی ہو کر زندہ رہتے ہیں وہ بھی بہت اذیت ناک زندگی گزارتے ہیں۔ پھر ہلاک یا زخمی ہونے والوں کے لواحقین کے غم و صدمے کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے۔ ایک شخص آپ کی روزمرہ کی زندگی کا بڑا حصہ ہو اور ایک دن اچانک وہ آپ کی زندگی سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے روانہ ہو جاءے تو آپ کس قسم کے صدمے سے دوچار ہوں گے، اس کا محض تصور ہی کیا جاسکتا ہے۔ جو لوگ جنگ میں معذور اور لاچار ہوجاتے ہیں ان سے متعلق لوگوں کی زندگیوں پہ اس معذوری اور لاچاری کا کیا اثر پڑتا ہے اس بارے میں بھی قیاس آراءی کی جا سکتی ہے۔ مگر جو شخص بندوق کی لبلبی دباتا ہے، جو بٹن دبا کر میزاءل داغتا ہے، جو جہاز سے بم گراتا ہے، کیا وہ محاذ سے پلٹ کر مطمءن اور خوش رہتا ہے؟ اس سوال کا جواب آپ کو وہ لوگ دیں گے جو جنگ سے پلٹنے والے سپاہیوں کے معالج اور نفسیات داں ہیں۔ پاکستانی نژاد نفسیات داں ڈاکٹر ماہین موصوف ایڈمسن ایسی ہی ایک معالج ہیں جو جنگ سے لوٹنے والے سپاہیوں کا علاج کرتی ہیں۔ حال میں نوگیارہ کے حوالے سے ہونے والی ایک تقریب میں ڈاکٹر ماہین ایڈمسن نے جنگ سے لوٹنے والے سپاہیوں کے بارے میں بتایا کہ ان میں سے بہت سے ایک مخصوص نفسیاتی عارضے، پی ٹی ایس ڈی یا پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر، کا شکار ہوتے ہیں۔ اس نفسیاتی عارضے میں مختلف چیزیں اور آوازیں آپ کو جنگ کی ہولناکیوں کی یاد دلاتی ہیں اور آپ بار بار خوفزدہ ہو جاتے ہیں۔ ماہین نے اس عارضے کی تفصیلات بیان کرتے ہوءے بتایا کہ انیس بیس سال کے نوجوان فوج میں بھرتی ہوتے ہیں۔ وہ ولولے سے بھرے ہوتے ہیں۔ وہ اپنے وطن کے لیے لڑنا چاہتے ہیں، ان کے ذہن میں کچے پکے خیالات ہوتے ہیں کہ ان کا دشمن کون ہے۔ ان نوجوانوں کو امریکہ کے صاف ستھرے ماحول سے اٹھا کر افغانستان یا عراق روانہ کر دیا جاتا ہے۔ وہاں حالات یکسر مختلف ہوتے ہیں۔ وہ کنفیوژن کا شکار ہوجاتے ہیں کہ دوست کون ہے اور دشمن کون، اور وہ کس کے لیے کیوں لڑ رہے ہیں۔ پھر ایک دن وہ محاذ پہ اپنی مدت ختم کر کے واپس امریکہ پلٹ آتے ہیں۔ ان سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ دوبارہ سے اپنی زندگی وہیں سے شروع کر دیں گے جہاں انہوں نے ختم کی تھی۔ مگر اب بات کچھ اور ہوتی ہے۔ یہ نوجوان جنگ کی ہولناکیاں دیکھ چکے ہوتے ہیں۔ ان کے لیے اپنی زندگیوں کو پھر پرانے ڈھنگ سے شروع کرنا مشکل ہوتا ہے۔ وہ کسی بچے کی چیخ پہ اچانک چونک اٹھتے ہیں کہ انہوں نے یہ چیخ ایک ایسے بچے کے منہ سے سنی ہوتی ہے جو گولی لگنے کے بعد خون میں لت پت تھا اور کچھ دیر میں زندگی کی بازی ہار گیا تھا۔ مخصوص خوشبو، ذاءقے، نظارے، اور آوازیں انہیں جنگ کی ہولناکیوں کی یاد دلاتے ہیں اور ان کے لیے ہر دن کا گزارنا ایک کرب ناک مرحلہ بن جاتا ہے۔ ماہین نے موجودہ جنگوں کا ایک ایسا پہلو بھی بیان کیا جو میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔ ماہین نے بتایا کہ امریکی فوج میں شامل خواتین سپاہی مستقل خوف کے ماحول میں رہتی ہیں۔ اور ان کا یہ خوف ان کے اپنے ساتھی مرد سپاہیوں کی طرف سے ہوتا ہے۔ عراق اور افغانستان میں فوجی کیمپوں میں خواتین رات کے وقت بیت الخلا استعمال کرتے ہوءے گھبراتی ہیں کیونکہ ان کو خوف ہوتا ہے کہ وہ رات کو بیت الخلا جاءیں گی تو ان کے ساتھ جنسی تشدد کیا جاءے گا یا ان کی عصمت دری کی جاءے گی۔ رات کو بیت الخلا کے استعمال سے بچنے کی وجہ سے ان خواتین کو مختلف بیماریاں ہو جاتی ہیں۔ غرض کہ افغانستان اور عراق کی جنگوں سے پلٹنے والے مرد اور عورت سپاہی طرح طرح کے عارضوں کے شکار ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر ماہین ایڈمسن کی باتیں سن کر احساس ہوا کہ جنگ کس قدر زیاں کا تحفہ ہے۔ جنگ میں کسی کی جیت نہیں ہوتی۔ مارا جانے والا بھی ہارتا ہے اور مارنے والا بھی۔ موجودہ دور کی جنگوں میں بہادری کا کوءی پہلو دور دور نظر نہیں آتا۔ جنگ کرنے کا فیصلہ ایسے لوگ کرتے ہیں جو جنگ کی ہولناکیوں سے بہت دور محفوظ جگہوں پہ بیٹھے رہتے ہیں۔ وہ محاذ پہ ایسے نوجوانوں کو روانہ کرتے ہیں جو دنیا کا بہت مختصر تجربہ رکھتے ہیں۔ یہ نوجوان یا تو اپنی جان دے کر تابوتوں میں بند وطن پلٹتے ہیں یا جنگ میں گھاءل ہو کر معذور ہو کر لوٹتے ہیں، یا پھر بظاہر صحیح سلامت واپس آتے ہیں مگر دراصل نفسیاتی طور پہ شدید بیمار ہوتے ہیں۔ ۔ امریکی شاعرہ حوا مریم نے اپنی ایک نظم میں لکھا تھا،" میرا خواب ہے کہ ایک ایسا بچہ جنوں جو ایک دن پوچھے، ماں، یہ جنگ کیا چیز ہوتی تھی؟ " کاش حوا مریم کا یہ خواب جلد پورا ہو۔ اس دنیا سے جنگ کا خاتمہ ہوجاءے کہ جنگ آدم خوری ہی کی تو ایک بھیانک شکل ہے۔

 

نوگیارہ کے بعد کا امریکہ






ایک فکر کے سلسلے کا کالم




نو گیارہ سے پہلے کا امریکہ اور تھا اور نو گیارہ کے بعد کا امریکہ اور ہے۔ نو گیارہ کے دہشت گرد حملوں میں قریبا تین ہزار لوگ اپنی جانیں گنوا بیٹھے۔ مگر اس واقعے کے بعد جو جنگیں شروع ہوءی ہیں ان میں آج بھی لوگ مر رہے ہیں۔ اس اتوار کو نو گیارہ کی دسویں سالگرہ کے موقع پہ دو طرح کے امریکی رد عمل نظر آءے۔ ایک ردعمل تو وہ تھا جسے سرکاری کہا جاءے تو زیادہ بہتر ہوگا اور جو ٹی وی پہ دکھاءی دے رہا تھا۔ اس ردعمل میں لوگ سر جھکاءے نو گیارہ کے دہشت گرد حملوں میں ہلاک ہونے والوں کو یاد کر رہے تھے۔ اس ردعمل میں غم کے جذبات کے ساتھ جنگ کی خاموش پکار تھی۔ اور دوسرا ردعمل وہ تھا جو عام امریکی، امن پسند لوگ اس موقع پہ ظاہر کر رہے تھے۔ ان امن پسند لوگوں کے لیے یہ موقع طبل جنگ بجانے کا نہ تھا بلکہ جنگ کی ہولناکیاں یاد کرنے کا تھا۔ یہ موقع نو گیارہ کے دہشت گرد حملوں میں مارے جانے والوں کے ساتھ ساتھ افغانستان، عراق، اور پاکستان میں مارے جانے والوں کو یاد کرنے کا تھا۔ یہ موقع احتجاج بلند کرنے کا تھا کہ بند کرو اس جنگ کو جس کا کوءی مقصد کوءی خاتمہ نظر نہیں آتا۔ یہ ایسی جنگ ہے جو بظاہر دہشت گردی کےخلاف لڑی جارہی ہے مگر دراصل خود دہشت گردی کی افزاءش کا سبب بن رہی ہے۔
سان فرانسسکو بے ایریا امن کے پیامبروں کا مرکز رہا ہے۔ نو گیارہ کی دسویں سالگرہ پہ یہاں صبح سے شام تک طرح طرح کے احتجاجی پروگرام ہوءے۔ ایسا ہی ایک پروگرام فرینڈز آف ساءوتھ ایشیا کی طرف سے تشکیل دیا گیا۔ اس پروگرام میں سب سے زیادہ معلوماتی گفتگو مشہور وکیل وینا ڈوبل کی تھی۔ وینا ڈوبل نے اپنی تقریر میں بتایا کہ نو گیارہ کے بعد ایف بی آءی کا کردار محض ایک تفتیشی ادارے کا نہیں رہا بلکہ یہ ایجنسی جارحانہ طور پہ دہشت گردوں کو تلاش کرتی ہے اور لوگوں کے شرپسند خیالات پرکھ کر ان پہ ہاتھ ڈالتی ہے۔ ایف بی آءی پہ تنقید کے معاملے میں یقینا وینا ڈوبل تنہا نہیں ہیں۔ حال میں بی بی سی نے ایک مختصر رپورٹ میں بتایا تھا کہ ایف بی آءی دہشت گردوں کے سیل تلاش ہی نہیں کرتی بلکہ پہلے انہیں تشکیل دیتی ہے۔ اس سلسلے میں طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ ایف بی آءی کا ایک مخبر کسی مسلم کمیونٹی میں داخل ہوتا ہے اور وہان ایسے لوگ تلاش کرتا ہے جن کے دل میں دہشت گردی کرنے کا خیال چھو کر بھی گزرا ہو۔ اگر ایسا کوءی بے وقوف شخص مل جاءے تو مخبر اس کے ساتھ مل کر دہشت گردی کا ایک منصوبہ تلاش کرتا ہے، پھر اس شخص کو جعلی اسلحہ اور دھماکہ خیز مواد دیا جاتا ہے، اس شخص کو پیسوں کا لالچ دیا جاتا ہے کہ اگر اس نے دہشت گردی کی کارواءی کی تو اسے انعام سے نوازا جاءے گا اور جب یہ شخص اس کام کے لیے تیار ہوجاتا ہے تو اسے دہشت گردی کے الزام میں دھر لیا جاتا ہے۔
وینا ڈوبل نے بتایا کہ لوگوں سے انٹرویو کرتے ہوءے ایف بی آءی ایجنٹ ان لوگوں کو مخبر بننے کی دعوت دیتے ہیں۔ اپنے ایک موکل کا واقعہ بیان کرتے ہوءے وینا نے بتایا کہ اس شخص نے ایف بی آءی کا مخبر بننے سے انکار کیا تو سزا کے طور پہ اس کا نام نو فلاءی لسٹ پہ ڈال دیا گیا۔
اپنی تقریر میں دینا ڈوبل نے کہا کہ وہ اپنے موکلوں کو مشورہ دیتی ہیں کہ وہ کسی ایف بی آءی ایجنٹ سے وکیل کی غیرموجودگی میں بات نہ کریں کیونکہ نو گیارہ کے بعد ایف بی آءی کو ایسی مراعات دی گءیں ہیں کہ اس کے ایجنٹ جھوٹ بول کر کسی شخص کو پھنسا سکتے ہیں۔ پھر اس کے ساتھ اگر ایف بی آءی سے گفتگو میں آپ بھول چوک سے بھی کوءی غلط بیانی کردیں تو یہ "جھوٹ" ایک قابل سزا جرم ہے۔
وینا ڈوبل نے بتایا کہ ایف بی آءی ان جیسے شہری حقوق کے وکلا سے خوش نہی ہے۔ ایف بی آءی سے ایک ملاقات میں وینا کی تنظیم ایشین لاء کاکس کو ایف بی آءی کے ساتھ کام کرنے کی دعوت دی گءی۔ جب وینا نے خوش اخلاقی سے اس دعوت کو ٹھکرایا تو حیرت کا اظہار کیا گیا اور بتایا گیا کہ جنوبی ایشیاءی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والی کءی تنظیمیں پہلے ہی ایف بی آءی کے ساتھ کام کر رہی ہیں اور ایف بی آءی مسلم ایڈووکیٹژ اور سکھ کولیشن نامی تنظیموں کو اپنا پارٹنر سمجھتی ہے۔

 

دہشت کے دس سال



ستمبر پانچ، دو ہزار گیارہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم


اس اتوار کو نو گیارہ کے دہشت گرد حملوں کو دس سال ہو جاءیں گے۔ نو گیارہ کہیے یا نہیں انگریزی میں ناءن الیون کہیے ، بات خود واضح ہوجاتی ہے کہ کس واقعے کا ذکر ہو رہا ہے۔ پچھلے دس سالوں میں دنیا بالکل پلٹ چکی ہے۔ امریکہ کی طرف سے ایک ایسی جنگ جاری ہے جسے سرکاری طور پہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کہا جا رہا ہے مگر جو اصل میں خود دہشت گرد پیدا کر رہی ہے، نفرت کے گہرے بیج بو رہی ہے۔ پچھلے دس سالوں میں دنیا میں جو بڑے بڑے واقعات ہوءے ہیں ان کا نو گیارہ کے واقعے سے کچھ نہ کچھ تعلق ہے۔
نو گیارہ کے بعد ہم نے امریکہ میں ایک اسلام مخالف لہر ابھرتی دیکھی۔ موجودہ دنیا ایک باہم پیوستہ دنیا ہے۔ ورلڈ واءڈ ویب یا انٹرنیٹ نے اس بات کو ممکن بنا دیا ہے کہ ایک جگہ سے اٹھنے والے خیالات پوری دنیا میں پھیل جاءیں۔ ہم جس دنیا میں رہ رہے ہیں وہاں مغربی ذراءع ابلاغ بے حد طاقتور ہیں۔ مغرب سے بپا ہونے والی نظریات کی لہریں اتنی قوی ہیں کہ ذرا سی دیر میں پوری دنیا میں پھیل جاتی ہیں۔
نوگیارہ کے واقعے کے بعد اسلام کا ایک بے بنیاد خوف امریکہ میں روپذیر ہوا، آگے یورپ پہنچا، اور پھر پوری دنیا میں پھیل گیا۔ اس خیال نے تقویت پاءی کہ مسلمان بقیہ مذہبی گروہوں سے الگ ہیں، مسلمان دوسرے لوگوں کے ساتھ نہیں رہ سکتے، اور یہ کہ مسلمان مغرب کے نظام پہ قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ اس قسم کے غلط خیالات نے بہت سی جگہ معاشروں کی جڑیں ا کھوکھلی کر دیں۔ میں سنہ دو ہزار دو میں گجرات ہندوستان میں ہونے والے مسلم کش فسادات کو بھی عالمی اسلام مخالف لہر کا ایک ثمر سمجھتا ہوں۔ ان فسادات میں ہزار سے اوپر لوگ ہلاک ہوءے تھے۔ فرانس میں برقعے کے خلاف بنایا جانے والا قانون بھی اسی خیال کا شاخسانہ ہے۔ اور انہیں خیالات سے متاثر ہو کر ناروے کے اینڈریس بریویک نے بانوے لوگوں کو ہلاک کر دیا۔
نوگیارہ کے واقعے کے بعد امریکہ کے طرز عمل نے دنیا پہ واضح کر دیا کہ دنیا کو جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے حساب سے چلنا چاہیے۔ طاقت کی حکمرانی اول و آخر ہے۔ اگر کسی طرح طاقتور کے ساتھ کوءی زیادتی ہوءی ہے تو اس زیادتی کے ازالے کے لیے کسی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کی کوءی ضرورت نہیں۔ طاقتور ملزم کو محض اپنے شک کی بنیاد پہ سزا دینے کا حق رکھتا ہے۔
نوگیارہ کے واقعات کے بعد امریکی عوام نے شور مچایا کہ نوگیارہ کے دہشت گرد حملوں کی آزادانہ تحقیقات کراءی جاءیں ۔ کانگریس نے مطالبہ تسلیم کرتے ہوءے ایک کمیشن وضع کیا ۔ نو گیارہ کمیشن نے سینکڑوں لوگوں کے انٹرویو کرنے کے بعد ایک نہایت تفصیلی رپورٹ جاری کی جس میں ثابت کیا گیا کہ نوگیارہ کے دہشت گرد حملے اسامہ بن لادن کی جماعت القاعدہ ہی کی طرف سے تھے۔ ثبوت کے طور پہ خالد شیخ محمد کے بیانات پیش کیے گءے۔ مگر خالد شیخ محمد کے اقبالی بیانات اس قدر زیادہ جراءم کے متعلق ہیں کہ ان بیانات کی صداقت پہ شک ہوتا ہے۔ اس سال مءی دو کے روز ایک بہترین موقع تھا دنیا پہ واضح کرنے کا نوگیارہ کے حملے اسامہ بن لادن کی ایما پہ ہوءے تھے۔ اسامہ بن لادن کی ٹانگ پہ گولی مار کر اسے حراست میں لیا جا سکتا تھا اور عدالت میں پیش کیا جاسکتا تھا۔ کتنا اچھا ہوتا کہ اسامہ بن لادن کو اپنی بات کرنے کا موقع فراہم کیا جاتا اور دنیا کی نظروں میں دنیا کی اکیلی سپر پاور کا رتبہ بلند ہو جاتا مگر افسوس کہ یہ راستہ نہ اپنایا گیا۔ اسامہ بن لادن کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا اور صدر اوباما نے فرمایا کہ "انصاف ہوگیا۔" اوباما کا یہ جملہ سن کر میرا سر شرم سے جھک گیا اور مجھے جامعہ ہارورڈ پہ غصہ آیا کہ اس نے کس طرح اوباما کو قانون کی سند دے دی۔
نوگیارہ کے دہشت گرد حملے دنیا بھر میں کروڑوں لوگوں نے ٹی وی پہ دیکھے۔ نوگیارہ سے متعلق ہر شخص کی ایک الگ کہانی ہے کہ وہ ان حملوں کے وقت کہاں تھا اور ان حملوں کے بعد اس پہ کیا گزری۔ جہاں ایک طرف اس سال نوگیارہ کے روز ایک سرکاری تقریب ہوگی جس میں اوباما وہی کچھ کہیں گے جو وہ ایک عرصے سےکہتے آرہے ہیں اور جہاں معصوم امریکی شہری جھنڈے لہرا کر اور جنگ کی تاءید کر کے اپنی حب الوطنی کا ثبوت فراہم کریں گے، وہیں دوسری طرف سان فرانسسکو میں فرینڈز آف ساءوتھ ایشیا کے زیر اہتمام ایک محفل منعقد ہوگی جس میں نوگیارہ اور اس کے بعد ہونے والے واقعات کا بھرپور جاءزہ لیا جاءے گا۔ یہ محفل سان فرانسسکو پبلک لاءبریری کے کوریٹ آڈیٹوریم میں اتوار، سمتمبر گیارہ کے روز ایک سے چار بجے کے درمیان منعقد ہوگی۔ اس محفل میں شرکت کرنے والے بھی نو گیارہ سے متعلق اپنی کہانی سنا سکیں گے اور جنگ سے متعلق اپنے خیالات پیش کر سکیں گے۔ امید ہے کہ اس کالم کے قارءین نوگیارہ کی اس محفل میں شریک ہوں گے۔

 

کیسی عید؟



اگست اٹھاءیس، دو ہزار گیارہ



ایک فکر کے سلسلے کا کالم


چند دنوں بعد عید ہے مگر دل ہے کہ خوش ہونے کو تیار نہیں۔ کیسی عید، اور کیسا جشن؟ خاص طور پہ کراچی والوں کے لیے جہاں رمضان کے ہر روز خون کی ہولی کھیلی گءی ہے اور ثابت کیا گیا ہے کہ انسان شیطان سے بڑا شیطان ہے۔ میں جانتا ہوں کہ میں جس کراچی میں پیدا ہوا، جہاں پلا بڑھا، آج کا کراچی وہ کراچی نہیں ہے مگر کیا کیجیے کہ دل نہیں مانتا۔ آنے والی عید اور ستمبر گیارہ کی تاریخ میں کوءی خاص دوری نہیں ہے۔ آج دنیا جن بڑے بڑے مساءل سے نبردآزما ہے ان میں سے بیشتر کا تعلق کسی نہ کسی طرح گیارہ ستمبر دو ہزار ایک کے حملوں سے جڑتا ہے۔ اس گیارہ ستمبر کو اس خونی واقعے کو دس سال ہو جاءیں گے۔ اور ان دس سالوں میں دنیا اتنی بدلی ہے کہ شاید اکثر چار پانچ دہاءیوں میں اتنی نہیں بدلتی۔ اس گیارہ سمتبر کے روز موجودہ صدر براک اوباما اور سابق صدر جارج بش، نیویارک جاءیں گے اور سابقہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے مقام پہ دہشت گردوں کے حملوں میں مارے جانے والوں کے اہل خانہ سے ملیں گے۔ وہ ڈرامہ جو ہر سال دہرایا جاتا ہے اس واقعے کی دسویں سالگرہ پہ اور زوردار طریقے سے دہرایا جاءے گا۔ دونوں صدور یقینا چہروں پہ گہری سنجیدگی سجاءے پرعزم تقاریر کریں گے۔ وہ لوگوں کو بتاءیں گے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کس قدر کامیاب جارہی ہے۔ وہ شاید براہ راست اسامہ بن لادن کی ہلاکت کا تذکرہ نہ کریں مگر تبصرہ نگار یقینا اس طرف نظر کریں گے اور چند ماہ پہلے اسامہ بن لادن کی ہلاکت کو امریکہ کی زبردست فتح قرار دیں گے۔ یہ سب ڈرامہ اس قدر دھوم دھڑکے سے ٹی وی سمیت میڈیا کے دوسرے ذراءع سے پیش کیا جاءے گا کہ امریکہ کے بیشتر لوگ حب الوطنی کی تازہ لہر میں بہتے ہوءے ذہن میں آنے والے کسی بھی وسوسے کو بھول جاءیں گے اور آڑھے ترچھے سوالات سے گریز کریں گے۔ اس ستمبر گیارہ کو شاید بہت سے لوگوں کو یہ یاد بھی نہ آءے کہ ستمبر گیارہ دو ہزار ایک کے حملوں کے بعد "دہشت گردوں" کا ایک اور حملہ ہوا تھا جس نے امریکی داخلی اور خارجہ پالیسی پہ گہرے اثرات چھوڑے تھے۔ گیارہ ستمبر دو ہزار ایک کے واقعے کے چند دن بعد دو امریکی سینیٹر اور میڈیا کے بہت سے اداروں کو ایسے خطوط موصول ہوءے تھے جن میں اینتھریکس کے جراثیم تھے۔ ہر لفافے میں ایک رقعہ بھی تھا جس پہ اور خرافات کے علاوہ امریکہ مردہ باد اور اسلام زندہ باد لکھا تھا۔ بات نہایت واضح تھی کہ امریکہ کے انددر رہتے ہوءے لوگوں کو اینتھریکس کے جراثیم بھیجنے کا کام کون کر سکتا تھا۔ ان اینتھریکس حملوں نے دو اصلاحات اور امکانات کے خیال کو قوت بخشی، ایک سلیپر سیل اور دوسرے ایک ایسی بیرونی طاقت جس کے پاس وسیع ہلاکت کے موثر ہتھیار تھے۔ امریکہ کے اندر شدت پسند مسلمانوں کے سلیپر سیل کے خیال نے وہ راءے عامہ ہموار کی جس کی موجودگی میں پیٹریاٹ ایکٹ قانون ساز ادارے سے پاس ہوا۔ اور مہلک ہتھیار رکھنے والی ایک بیرونی طاقت کے خیال نے عراق پہ امریکہ حملے کی راہ ہموار کی۔ پیٹریاٹ ایکٹ اکتوبر دو ہزار ایک میں پاس ہوا اور عرق پہ حملہ سنہ دہ ہزار تین میں ہوا۔ ایسے دور رس اقدامات کی راہ ہموار کرنے کے بعد اینتھریکس حملوں کی کہانی پس پشت چلی گءی۔ بہت کم لوگوں نے اس طرف توجہ کی کہ اینتھریکس حملوں کا ذمہ دار بروس ایڈورڈز ایونس نامی ایک شخص ٹہرایا گیا تھا جو امریکی حکومت کی ایک لیب میں کام کرتا تھا۔ بروس کو حفاظتی تحویل میں لے لیا گیا تھا اور اسی تحویل میں ایک روز بروس نے ' خودکشی' کر لی۔ بروس کی خودکشی پہ ایف بی آءے نے بروس کو اینتھریکس حملوں کا مکمل اور اکیلا زمہ دار ٹہرا کر تفتیش ختم کردی اور مسل داخل دفتر ہوءی۔ اینتھریکس حملوں کی جو خبر اخبارات کے اول صفحوں کی زینت بنی تھی اس کی تفتیش کے اختتام کی خبر اخبارات کے غیر اہم صفحوں تک ہی رساءی حاصل کرپاءی۔ اور یہ جادو ہم ایک عرصے سے دیکھ رہے ہیں۔ ہمارے سامنے ایک واقعہ ہوتا ہے۔ ہم سب اسے دیکھتے ہیں، اس کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، مگر اچانک ایک بھاری آواز زوردار طریقے سے بلند ہوتی ہے اور واقعے کی ایک خاص توجیہ فراہم کی جاتی ہے اور اس مخصوص توجیہ کی فراہمی کے بعد اسی آواز کی بازگشت ہر سو سے آتی ہے حتی کہ ہمارے اندر کی ساری آوازیں دم توڑ جاتی ہیں اور ہم بھاری آواز اور اس کی بازگشت کے علاوہ کچھ اور سننے سے معذور ہو جاتے ہیں۔

 

کراچی کے فسادات


اگست باءیس، دو ہزار گیارہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم



کراچی کے فسادات


آج کراچی جس آگ میں جل رہا ہے اس کا براہ راست تعلق نوگیارہ کے واقعے سے ہے۔ مگر اس تعلق کے بارے میں بعد میں بات کریں گے۔ پہلے ہم اس قتل و غارت گری کی اصلیت جاننے کی کوشش کریں گے۔ اگر آپ بھی میری طرح پاکستانی اخبارات پڑھتے ہیں اور پاکستانی ٹی وی پروگرام دیکھتے ہیں تو آپ کو آج کل پاکستانی میڈیا میں ایک خاص قسم کی مصلحت نظر آءے گی۔ اور مصلحت یہ ہے کہ میڈیا میں لوگوں کے نسلی یا لسانی فرق کو بیان کرنا معیوب خیال کیا جاتا ہے۔ کسی ویڈیو میں کوءی شہری کہہ دے کہ پٹھان یہ کر رہے ہیں یا مہاجر یہ کر رہے ہیں تو اسے فورا روک کر کہا جاتا ہے کہ، نہیں، نہیں، ہم سب مسلمان ہیں، ہم سب پاکستانی ہیں۔ پاکستان کے انتشار کو مذہب یا پاکستانیت کی پٹی سے باندھ کر رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ایسی کوشش نہ صرف یہ کہ بھونڈی ہے بلکہ غیر موثر بھی ہے۔ دنیا بھر میں لوگ اپنی گروہی پہچان مختلف واسطوں سے رکھتے ہیں۔ پاکستان میں رہنے والے بھی اس کلیے سے مستثنا نہیں ہیں۔ پاکستان کے اکثر لوگ اپنی پہچان اپنی زبان یا اپنے علاقاءی تعلق سے بناتے ہیں۔ لوگوں کی صدیوں پرانی شناخت کو دبانے کی کوشش کرنا حماقت ہے۔ اور وہ لوگ جو اپنی پہچان پہ فخر کرتے ہیں اس رویے کو ناقابل قبول پاءیں گے۔ لوگوں کی لسانی یا جغرافیاءی پہچان کو نظر انداز کرنے کے بجاءے معاشرے کے سمجھ دار لوگوں کو یہ بات واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ کسی نسلی یا لسانی پہچان کو واضح کرنے میں نہ کوءی عیب ہے اور نہ کوءی گھمنڈ۔ وہ لوگ جنہوں نے دنیا کی اونچ نیچ دیکھی ہے، جو بھانت بھانت کے لوگوں میں اٹھے بیٹھے ہیں، وہ لوگوں کی نسلی، لسانی، یا مذہبی شناخت کی کھوکھلی حیثیت سمجھتے ہیں۔ شناخت کے ان پیراہن کی حیثیت اتنی ہی ہے جتنی اس بات کی کہ کسی شخص نے آیا سفید رنگ کی قمیض پہنی ہوءی ہے یا نیلے رنگ کی۔ پاکستان میں بالعموم اور کراچی میں بالخصوص مقامی راہ نماءوں کو اس ترقی پسند سوچ کو سامنے لانا ہوگا کہ لوگوں کے اپنے آپ کو مہاجر یا پٹھان یا پنجابی یا سندھی یا بلوچی یا مکرانی وغیرہ کہلوانے میں کوءی حرج نہیں ہے۔ حرج آپس کے ان سطحءی فرق کو اختلاف کا ذریعہ بنانے میں ہے۔ کسی نابینا شخص سے پوچھیے کہ اسے کس رنگ اور نسل کے لوگ پسند ہیں۔ وہ حیرت سے آپ سے پوچھے گا کہ لوگوں کی پسند یا ناپسند کا تعلق رنگ و نسل سے کیسے ہو گیا؟ اصل اہمیت اس بات کی ہے کہ کون آپ سے محبت سے بات کرتا ہے اور اچھا سلوک کرتا ہے۔
آءیے اب یہ جانچنے کی کوشش کریں کہ کراچی میں کیا ہورہا ہے۔ کراچی میں تین مختلف وجوہات کی وجہ سے قتل و غارت گری ہورہی ہے: پہلی وجہ نسلی اور لسانی منافرت ہے جس کا شکار قصبہ کالونی، کٹی پہاڑی، اورنگی وغیرہ کے علاقے ہیں۔ ان علاقوں میں پٹھان اور مہاجر گروہ ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں۔ دوسری وجہ بھتہ خوری ہے جس کے بڑے شکار شہر کے پرانی کاروباری علاقے ہیں۔ اور تیسری وجہ منشیات فروشوں اور قبضہ مافیا کے متحارب گروہوں کی آپس میں لڑاءی ہے۔ اس لڑاءی کو عرف عام میں گینگ وار بھی کہا جاتا ہے اور اس قیامت کا شکار لیاری کا علاقہ ہے۔ موخرالذکر دو وجوہات کی قتل و غارت گری پہ تو پولیس کی کارواءی کے ذریعے قابو پایا جا سکتا ہے مگر اولالذکر لڑاءی ختم کرانے کے لیے معاشرتی طور پہ بہت بالغ النظری کی ضرورت ہے۔ مہاجر اور پٹھان گروہوں کی لڑاءی کا براہ راست تعلق نو گیارہ کے واقعے سے ہے۔
نو گیارہ کے دہشت گرد حملوں کے بعد امریکہ نے افغانستان پہ دھاوا بول دیا۔ سنہ دو ہزار آٹھ میں اوباما کے صدر بننے کے بعد پاکستان کے شمالی، پٹھان علاقوں میں امریکی فوجی حملوں کی تعداد میں یک دم اضافہ ہوا۔ ڈرون کے ذریعے لوگوں اور گھروں کو نشانہ بنایا گیا۔ مقامی آبادی روز روز کے ان حملوں سے تنگ آکر نقل مکانی کرنے پہ مجبور ہوءی۔ نقل مکانی کرنے والے بیشتر لوگ کراچی آءے کیونکہ کراچی نہ صرف پاکستان کا سب سے بڑا تجارتی مرکز ہے بلکہ دنیا میں پٹھانوں کا سب سے بڑا شہر بھی ہے۔ کراچی میں ایک عرصے سے ایم کیو ایم کا راج ہے۔ ایم کیو ایم کہنے کو تو متحدہ قومی موومنٹ بن گءی ہے مگر آج بھی اس کے اکثر حمایتی مہاجر ہیں۔ سنہ دو ہزار آٹھ کے بعد بڑے پیمانے پہ کراچی میں پٹھانوں کی آمد سے ایم کیو ایم کو شہر کا توازن آبادی بگڑتا نظر آیا۔ ایم کیو ایم کو اندازہ ہوا کہ کراچی میں اسی طرح پٹھانوں کی آبادی بڑھتی رہی تو آءندہ انتخابات میں کھیل اس کے ہاتھ سے نکل سکتا ہے۔ الطاف حسین نے شور مچایا کہ کراچی میں طالبان آرہے ہیں، انہیں روکا جاءے۔ ان کے کہنے کا مقصد یہ تھا کہ کراچی میں مزید پٹھانوں کو نہ آنے دیا جاءے۔ الطاف حسین کے کہنے سے کوءی فرق نہیں پڑا اور پٹھان کراچی میں آتے رہے۔ پھر ایم کیو ایم اور اے این پی کی خونی لڑاءی شروع ہوءی۔ واضح رہے کہ اے این پی کراچی میں پٹھانوں کی نماءندگی کرتی ہے۔ ایم کیو ایم اور اے این پی کے عہدیداران قتل ہونا شروع ہوءے۔ نسلی منافرت کی بنیاد پہ قتل و غارت گری کا سلسلہ بڑھتا گیا اور اب یہ حالت ہے کہ پورے پورے گروہ آپس میں متحارب ہیں۔ کراچی کا عام شہری اس خون خرابے سے تنگ ہے۔ بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ کراچی میں فوج آءے اور حالات کو قابو میں لاءے۔ سمجھنے کی بات ہے کہ مسءلہ یہ نہیں ہے کہ لوگوں کے پاس غیر قانونی اسلحہ ہے، مسءلہ یہ ہے کہ لوگ یہ غیرقانونی اسلحہ استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ مسءلہ یہ نہیں ہے کہ لوگ ایک دوسرے کو جان سے مار رہے ہیں، مسءلہ یہ ہے کہ یہ لوگ ایک دوسرے سے اس قدر نفرت کرتے ہیں کہ واقعی ایک دوسرے کو جان سے مارنا چاہتے ہیں۔ فوری امن و امان قاءم کرنے کے لیے یقینا فوج کی مدد لی جا سکتی ہے مگر ایسی مدد مسءلے کا پاءیدار حل ہرگز نہیں ہے۔ پاءدار حل یہ ہے کہ شہر میں رہنے والے، مختلف قومیتوں کے لوگ ایک دوسرے سے بات چیت کریں۔ اپنی نسلی یا لسانی شناخت کو اختلاف اور جھگڑے کا ذریعہ نہ بناءیں۔ محلے کی سطح پہ لوگ ایک دوسرے سے گفتگو کریں اور یہ طے کریں کہ کوءی خراب واقعہ ہونے کی صورت میں معاملات کو بد سے بد تر نہیں ہونے دیں گے بلکہ آپس میں مل کر فوری تحقیقات کریں گے اور مجرموں کو قرار واقعی سزا دیں گے۔ اگر رکشہ ڈراءیور زمرد خان کو کچھ لوگ مار کر چلے گءے ہیں، تو مہاجر راہ نما اس واقعے کو نظر انداز نہیں کر دیں گے بلکہ اس فعل کی سختی سے مذمت کریں گے اور اس شخص کے قاتلوں کی تلاش میں پولیس کا ساتھ دیں گے۔ اسی طرح صدر میں کپڑے کی دکان پہ کام کرنے والے ایک نوجوان محمد عرفان ولد محمد سلمان کو بنارس پہ نامعلوم افراد نے قتل کر دیا ہے تو پشتون اس ظلم پہ شدید احتجاج کریں گے اور مجرم کو اپنی صفوں میں چھپنے کا موقع نہیں دیں گے۔ قصہ مختصر یہ کہ کراچی میں مقامی سطح پہ نءی قیادت کو سامنے آنا ہوگا جو نفرت سے بھرے پرانے سیاسی گرگوں کو ایک طرف ہٹا کر مختلف قومیتوں کے درمیان اعتماد بحال کرنے کا کام کرے۔

This page is powered by Blogger. Isn't yours?