Friday, November 19, 2010

 

پہچان





انسان کی پہچان کی کءی نسبتیں ہیں۔ دنیا کے زیادہ تر لوگ اپنی پہچان ایسے واسطوں سے رکھتے ہیں جن پہ ان کا کوءی اختیار نہیں ہوتا۔ وہ کس ملک میں پیدا ہوءے، وہ کونسی زبان بولنے والوں کے گھر پیدا ہوءے، پیداءشی طور پہ ان کا مذہب کیا ہے، ان کی رنگ و نسل کیا ہے، پہچان کے یہ وہ واسطے ہیں جو لوگوں کے ماتھوں پہ مظبوطی سے جڑے ہوتے ہیں۔ دوسرے لوگ پہچان کے ان ہی حوالوں سے فوری فیصلہ کرتے ہیں کہ کوءی شخص کیسے سلوک کا مستحق ہے۔ جب آپ پہلی دفعہ کسی شخص سے ملتے ہیں تو اس کے منہ کھولنے سے پہلے آپ اس کا جاءزہ لیتے ہیں۔ اس سرسری جاءزے سے آپ غیر شعوری طور پہ اس شخص کے بارے میں ایک راءے قاءم کرتے ہیں۔ آپ کی یہ فوری راءے آپ کے ذہن میں بسے تعصبات کی روشنی میں ہوتی ہے۔ اگر اس حلیے و شکل کے لوگ آپ کو پہلے دس بار ملے اور ہر دفعہ وہ لوگ بے ایمان ثابت ہوءے تو آپ اس نءے شخص کے بارے میں بالکل ایسی ہی خراب راءے رکھیں گے۔ حالانکہ اس بات کا بہت بڑا امکان موجود ہے کہ آپ کو اس حلیے و شکل کے ملنے والے دس لوگ اس گروہ کی یکسر غلط عکاسی کرتے ہوں۔
ایک وقت تھا کہ لوگوں کے ذہن میں بسے تعصبات ان کے اپنے ذاتی تجربات سے وجود میں آتے تھے۔ وقت بدل گیا ہے۔ اب انٹرنیٹ، ٹی وی، ریڈیو، اور اخبارات آپ کے تعصبات ہموار کرتے ہیں۔ میڈیا سے موصول ہونے والی طاقتور لہریں یہ تعین کرتی ہیں کہ لوگوں کے کسی گروہ کو کس نظر سے دیکھا جاءے گا۔
میرے ایک عزیز بچکانہ ماہر قلب (پیڈیاٹرک کارڈیالوجسٹ) ہیں۔ وہ سعودی عرب میں کام کرتے ہیں اور جراحی سے پیداءشی قلبی خرابیاں رفع کرتے ہیں۔ کچھ روز پہلے وہ کسی کام سے میرے پاس یہاں سان فرانسسکو بے ایریا آءے ہوءے تھے۔ ان کے واپس سعودی عرب پہنچنے پہ میں نے ان سے فون پہ بات کی تو ان کی زبانی ایک حیرت انگیز واقعہ سنا۔ یہ واقعہ ان ہی کے الفاظ میں سنیے۔ "جہاز فینکس سے شکاگو کے لیے اڑا تو میں حسب عادت فورا ہی سو گیا۔ میں غنودگی میں تھا کہ مجھے آواز آءی کہ، 'فورا اے ای ڈی (آٹو میٹک ایکسٹرنل ڈی فیبریلیٹر) لاءو۔' اے ای ڈی وہ آلہ ہے جو دل کی دھڑکن درست کرنے کے کام آتا ہے۔ میں چھلانگ لگا کر اپنی جگہ سے کھڑا ہوگیا۔ آواز کی سمت دیکھا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک شخص اپنی نشست میں تیڑھا لیٹا ہوا ہے اور ایک عورت اس کے ساتھ کھڑی ہے۔ معلوم ہوا کہ اس شخص کو دل کا دورہ پڑا ہے اور عورت نے اپنی نشاندہی ایک نرس کے طور پہ کی ہے۔ میں اس نشست تک پہنچا اور اپنا تعارف کرایا کہ میں دل کا ڈاکٹر ہوں۔ میں نے اور لوگوں کی مدد سے مریض کو زمین پہ لٹایا اور اس کا سی پی آر شروع کیا۔ کچھ دیر کی کوشش کے بعد مریض کا دل پھر دھڑکنا شروع ہوگیا اور مریض نے آنکھیں کھول دیں۔ مریض، اس کے ساتھ سفر کرنے والی اس کی لڑکی، نرس اور دوسرے لوگ میرے شکر گزار تھے۔ میں نے جہاز کی ایمرجنسی کٹ میں موجود چند دواءیں مریض کو دیں۔ جہاز کے عملے نے مجھ سے پوچھا کہ آیا جہاز اپنے معمول سے شکاگو تک جاءے۔ میں نے مریض کو دوا تو دے دی تھی مگر مجھے معلوم تھا کہ جہاز میں وہ دواءیں نہیں تھیں جو مریض کو واقعی دی جانی چاہیے تھیں، اور اس بات کا امکان تھا کہ مریض کو دل کا دوسرا دورہ پڑے۔ میں نے جہاز کے عملے کو مشورہ دیا کہ جہاز کو جلد از جلد اتار لیا جاءے تا کہ مریض کو اسپتال لے جا کر اس کی صحیح طور پہ دیکھ بھال کی جا سکے۔ جہاز کے عملے نے میرے مشورے پہ عمل کیا اور جہاز ایل با کر کی، نیو میکسیکو میں اتار لیا گیا۔ مریض کو ایمبولینس میں ڈال کر قریبی اسپتال لے جایا گیا۔ پھر وہاں ایک اور عجیب واقعہ ہوا۔ ایک یورپی نژاد امریکی مسافر میرے پاس آیا، اس نے مجھ سے صاف اردو میں پوچھا، 'کیا آپ پاکستانی ہیں؟' میں نے کسی قدر تعجب سے اس کی طرف دیکھا اور اثبات میں اس کے سول کا جواب دیا۔ اس شخص نے اپنا تعارف کرایا کہ وہ شاءن ہیومینٹی کا ٹاڈ شے ہے۔ واضح رہے کہ شاءن ہیومینٹی نامی امریکی فلاحی ادارے نے حالیہ پاکستان سیلاب کے بعد مصبت زدہ لوگوں کی بہت مدد کی ہے۔ میرا جواب سن کر ٹاڈ شے نے وہاں اور لوگوں کے سامنے تقریر شروع کر دی کہ 'دیکھو، یہ ایک پاکستانی مسلمان ہے اور اس نے ایک شخص کی جان بچاءی ہے۔ تم لوگ پاکستان کے بارے میں کیا جانتے ہو؟ یہی کہ وہاں بم دھماکے ہوتے رہتے ہیں اور خود کش حملہ آور معصوم لوگوں کو مارتے رہتے ہیں؟ یہ شخص اس بات کی مثال ہے کہ پاکستانی بھی تمھاری طرح ہیں اور دل میں انسانیت کا درد رکھتے ہیں۔ تم نے خود دیکھا کہ یہ شخص کس طرح دوڑ کر آیا اور اس نے ایک آدمی کی جان بچا لی۔' میں ٹاڈ شے کی یہ تقریر سن کر سب کے سامنے شرمندہ ہو رہا تھا کہ آخر ایسی کیا بات ہوگءی، میں نے کونسا تیر مار دیا، میں ڈاکٹر ہوں، لوگوں کی جان نہیں بچاءوں گا تو کیا کروں گا۔ اور ٹاڈ شے نے اسی تقریر پہ اکتفا نہیں کیا، اس نے سی این این میں اپنی جان پہچان کے لوگوں کو فون کر دیا۔ چنانچہ جب جہاز ایل با کر کی سے شکاگو پہنچا تو سی این این کا عملہ میرے استقبال کے لیے وہاں موجود تھا۔ وہاں میرا انٹرویو ہوا۔"
تو یہ تھی ہمارے عزیز کی داستان۔ اوریہ ہے آج کے مسلمان کی راءج پہچان۔ کہ مسلمان اوروں کو مارنے کے درپے ہیں۔ اور اس درمیان کوءی باریش مسلمان کسی کی جان بچا لے تو لوگ حیرت سے اسے دیکھتے ہیں کہ یہ آپ نے کیا کیا، آپ سے اس طرح کی تو کوءی توقع نہیں تھی۔

تصویر بشکریہ
http://www.nhlbi.nih.gov

Labels: , , , , , , , ,


Monday, November 01, 2010

 

ایف بی آءی کے کالے دھندے





نو گیارہ کے واقعے کو نو برس بیت چکے ہیں مگر اس افسوس ناک تاریخی واقعے کے بعد امریکی انتظامیہ امریکی مسلمانوں کو جس شک کی نظر سے دیکھنے لگی تھی اس رویے میں اب تک کوءی تبدیلی نظر نہیں آءی ہے۔ اس کے برعکس وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ ترچھی نظر کڑی ہوتی جا رہی ہے۔ کچھ کچھ عرصے میں ایک خبر اخبارات کی زینت بنتی ہے جس میں بتایا جاتا ہے کہ فلاں امریکی مسلمان دہشت گردی کی بڑی کارواءی کرنے والا تھا مگر عین موقع پہ گرفتار کر لیا گیا۔ ایسی کسی خبر کو ذرا غور سے پڑھیے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ گرفتاری ایک فراڈ ہے جو دراصل دام گیری یا انٹریپمینٹ کے زمرے میں آنی چاہیے۔ اس دام گیری کا نیا ترین شکار ورجینیا سے تعلق رکھنے والا پاکستانی نژاد فاروق احمد ہے۔ فاروق احمد پہ الزام ہے کہ اس نے واشنگٹن ڈی سی کی میٹرو میں بم رکھنے کی نیت سے میٹرو اسٹیشن کی ایک ویڈیو بناءی تھی۔ اس خبر کی تفصیل میں جاءیے تو معلوم ہوگا کہ جو لوگ فاروق احمد کی مدد سے واشنگٹن میٹرو میں بم رکھنا چاہتے تھے وہ دراصل القاعدہ کے بھیس میں ایف بی آءی ایجنٹ تھے۔ با الفاظ دیگر ایف بی آءی کے اہلکار واشنگٹن میٹرو میں بم رکھنے کا منصوبہ لے کر فاروق احمد کے پاس گءے۔ فاروق احمد نہ جانے کس طرح ان کے جال میں آگیا اور اس منصوبے میں شرکت کرنے پہ آمادہ ہوگیا۔ فاروق احمد نے یہ نہ جانتے ہوءے کہ وہ ایف بی آءی اہل کاروں سے بات کررہا ہے اپنے "مسلمان بھاءیوں" کے کہنے پہ میٹرو اسٹیشن کی ویڈیو بناءی اور ان کے حوالے کردی۔ اور اب فاروق احمد کو یہ کہہ کر گرفتار کیا گیا ہے کہ اس نے میٹرو میں بم دھماکہ کرنے کی تیاری میں ویڈیو بناءی تھی۔ ایسوسی ایٹڈ پریس کی اس خبر میں لکھا ہے کہ اس طرح دہشت گردی کا ایک گھناءونا منصوبہ ناکام بنا دیا گیا۔ اس جملے کے اندرونی تضاد پہ ہنسی آتی ہے۔ گویا ایف بی آءی نے دہشت گردی کا ایک ایسا منصوبہ ناکام بنا دیا جو ایف بی آءی نے خود ہی تیار کیا تھا۔ فاروق احمد جیسے لوگوں کی گرفتاری سے ایف بی آءی بالخصوص اور امریکی انتظامیہ بالعموم یہ ثابت کرنا چاہتی ہے کہ امریکی مسلمانوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جو القاعدہ کے لیے ہمدردی رکھتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ وہ، یعنی ایف بی آءی کے اہلکار، ایسی امریکی مسلمان کالی بھیڑوں کو القاعدہ کے اہل کار کا بھیس بدل کر گرفتار کر لیں اس سے پہلے کہ القاعدہ کے اصل اہل کار ان لوگوں کی خدمات حاصل کریں۔ اس منطق میں بے انتہا جھول ہے۔ لوگوں کو اس طرح کے دام میں پھنسا کر گرفتار کرنا انصاف ہرگز نہیں ہے۔ القاعدہ اگر واقعی اتنی طاقتور اور منظم ہوتی کہ اپنے اہل کاروں کو امریکہ بھیج کر یہاں کے مسلمانوں کو دہشت گردی کے لیے اکسا سکتی تو امریکہ بھیجے جانے والے یہ اہل کار خود ہی دہشت گردی کی واردات کیوں نہ کر جاتے؟ ہمیں یہ بات نہیں معلوم کہ فاروق احمد کو اس جال میں پھنسانے والے لوگوں نے کس کس طرح فاروق احمد کو اپنے منصوبے میں شامل کرنے کے لیے تیار کیا ہوگا۔ اسے کس کس طرح ورغلایا گیا ہوگا کہ امریکہ دنیا بھر کے مسلمانوں پہ ظلم کررہا ہے اور اس ظلم کا بدلہ لینا بہت ضروری ہے۔ عین ممکن ہے فاروق احمد نے حجت کی ہو کہ ظلم کا بدلہ تو لیا جاءے مگر معصوم امریکی شہریوں کو کیوں قتل کیا جاءے۔ اور اس حجت کے جواب میں بھیس بدل کر آنے والے ایف بی آءی اہل کاروں نے فاروق احمد کو کہا ہو کہ امریکہ بھی تو افغانستان اور عراق میں معصوم مسلمان شہریوں کو قتل کر رہا ہے۔ اور اسی قسم کی خرافات سن کر فاروق احمد ان لوگوں کے جال میں آگیا ہو۔
یوں لگتا ہے کہ نو گیارہ کے واقعے کے فورا بعد ایف بی آءی سمیت دوسرے حساس اداروں کو پہلے آڑے ہاتھوں لیا گیا اور پھر انہیں کھلی چھوٹ دے دی گءی کہ وہ جو چاہے کریں بس یہ یقین دہانی کریں کہ آءندہ امریکی مٹی پہ نو گیارہ جیسا واقعہ نہ ہونے پاءے۔ ان سیکیورٹی اداروں نے فیصلہ کیا کہ ایسی یقین دہانی کا صرف ایک طریقہ ہے کہ لوگوں کو ڈرا کر رکھا جاءے۔ ہر مسجد میں جاسوس چھوڑے جاءیں جو بھیس بدل کر لوگوں کو پہلے دہشت گردی کے لیے اکساءیں اور پھر جو اس نرغے میں آجاءے اسے گرفتار کر لیا جاءے تاکہ دوسرے اور بھی ڈر جاءیں اور اس قسم کا کوءی خیال دل میں بھی نہ لاءیں۔
اور اس طرح ان اداروں نے خراب معاشی حالات میں اپنی نوکری بھی پکی کر لی ہے۔ عام امریکی کے لیے پیغام ہے کہ وہ بجٹ کی کٹوتی کے لیے ان اداروں کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھے۔ اگر ان اداروں کے بجٹ میں کمی کی گءی تو پورے امریکہ میں جگہ جگہ بم دھماکے ہونے لگیں گے۔

تصویر بشکریہ
http://www.guardian.co.uk
Luis Alvarez/AP

Labels: , , , ,


 

انسان اور اس کے پیراہن





پچھلی جمعرات کو ایک عجیب واقعہ ہوا۔ جامعہ سان ہوزے اسٹیٹ میں شام کے وقت کشمیر میں حریت پسندی کی تحریکوں پہ ایک پروگرام تھا۔ مقررہ یاسمین قریشی تھیں جن کا تعلق دہلی سے ہے۔ یاسمین انسانی حقوق کے موضوعات پہ لکھتی رہی ہیں۔ یاسمین قریشی نے پچھلے سال سری نگر اور اس کے آس پاس کے علاقوں کا دورہ کیا تھا اور جمعرات کو ان کی تقریر اسی متعلق تھی کہ وادی کشمیر میں تاریخی طور پہ حریت پسندی کی لہر کن ادوار سے گزری ہے اور آج کل کشمیری کس طرح سوچتے ہیں۔ پروگرام منعقد کرنے والوں کے علم میں یہ بات نہ تھی کہ انتہا پسند ہندو جماعتوں نے اپنے کارکنوں سے اس پروگرام میں شرکت کرنے کی اپیل کی تھی۔ تقریر کے بعد سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوا تو ایک شخص نے یاسمین قریشی کو سخت سست کہا اور کہا کہ مقررہ جیسے ہندوستانی مسلمانوں کی وجہ ہی سے ہندو ہندوستانی مسلمانوں سے نفرت کرتے ہیں۔ پھر دوسرے شرکا نے بھی یاسمین قریشی کی تقریر پہ خوب تنقید کی اور ان پہ الزام لگایا کہ ان کے اعداد و شمار غلط تھے اور انہوں نے اپنی تقریر میں غلط بیانی سے کام لیا۔ اس بارے میں کسی قسم کا شک نہ تھا کہ مقررہ پہ ایسی کڑی مگر بے سروپا تنقید کرنے والے لوگوں کا تعلق کس گروہ سے تھا۔ اس پروگرام میں یہ بات واضح ہوءی کہ ہندوستانی جمہوریت اور ریاست کتنے بڑے مساءل کا شکار ہے۔ کہ مذہب کا دیو جمہوری روایت کا گلا گھونٹنے کے درپے ہے۔ ہندوستانی ہندوءوں کا خیال ہے کہ وہ ہندوستان کے اصل رکھوالے ہیں۔ یہ لوگ جتنا زیادہ سینہ تان کر اس ملک کے نگہبان بنتے ہیں دوسرے عقاءد سے تعلق رکھنے والے لوگ اس ملک سے اس قدر ہی زیادہ متنفر ہوتے جاتے ہیں۔
ہم ایک عجیب دو ر میں زندہ ہیں کہ جب لوگوں کے مذہبی اختلافات ان کے درمیان تفرقے کا سب سے بڑا ذریعہ بن گءے ہیں۔ میں اکثر اپنے آپ سے سوال کرتا ہوں کہ وہ ذہنی رجحانات جو انسان کو کسی جانور سے ممیز کرتے ہیں ان میں مذہبی خیالات کا تناسب کیا ہے۔ اس بات کو یوں بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ صرف انسان ہی مذہبی رجحانات کا حامل ہوتا ہے۔ بکریاں، گھوڑے، اور دوسرے جانور کسی مذہب سے تعلق نہیں رکھتے۔ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والا شخص انسان ضرور ہوتا ہے مگر ہر انسان ایک مذہب سے تعلق نہیں رکھتا۔ لوگ اپنا مذہب بدل بھی لیتے ہیں۔
کچھ عرصے پہلے کی بات ہے کسی نے مجھ سے کہا تھا کہ اس کی نظر میں اس کی دینی اقدار اسی کی انسانی اقدار سے بڑھ کر ہیں۔ وہ شخص کلمہ گو تھا۔ میں نے اس شخص کی بات یوں سمجھی کہ اس کا کہنا تھا کہ وہ پہلے مسلمان ہے اور پھر انسان۔ میں نے بحث کی کہ ایسا کیوں کر ممکن ہے۔ مذہب، زبان، طور طریقے، تمدن، اخلاقی اقدار تو محض ایک نسل گہری ہوتی ہیں۔ ایک بچے کو اس کے ماں باپ سے جدا کر کے ایک دوسرے ماحول میں لے جاءیے تو وہ اپنے پرانے ماحول اور معاشرے سے قطعی بے گانہ ہو کر اپنے نءے ماحول اور معاشرے کے حساب سے ڈھل جاءے گا۔ وہ اپنے نءے اطراف کی اقدار اپنا لے گا۔ جو مذہب اسے اپنے نءے ماحول میں ملے گا اسے وہ اختیار کر لے گا۔
ایک چالیس سالہ چینی کو امریکہ میں لا کر بسا دیجیے وہ ہمیشہ ایک مخصوص لہجے ہی سے انگریزی بولے گا جس کو سمجھنا دوسرے امریکیوں کے لیے آسان نہ ہوگا مگر چین میں پیدا ہونے والے ایک ششماہے کو امریکی ماحول میں لا کر اس کی یہاں پرورش کیجیے وہ بالکل راءج انداز سے انگریزی بولے گا۔ مسلمان گھرانے میں پیدا ہونے ایک بچے کو عیساءیوں کے گھر بڑا ہونے دیجیے وہ بالکل عیساءی اقدار اپنا لے گا۔
چنانچہ یہ بات ہم سب پہ واضح ہونی چاہیے کہ ہماری انسانی اقدار ہماری مذہبی اور معاشرتی اقدار سے زیادہ گہری ہیں۔ اور یہی انسانی اقدار ہمارے دوسرے سطحءی اختلاف کے باوجود ہمیں ایک دوسرے کے قریب لانے کی سکت رکھتی ہیں۔
اندر سے انسان تو انسان ہے۔ اس کی ضروریات باقی انسانوں جیسی ہی ہیں۔ اسے بھوک لگتی ہے، پیاس لگتی ہے۔ وہ سردی گرمی سے بچنے کے لیے تن ڈھانپنا چاہتا ہے۔ وہ سکون سے رہنا چاہتا ہے، اپنے آس پاس کے لوگوں سے پیار کرتا ہے، اور اپنی نسل آگے بڑھانا چاہتا ہے۔ یہ ہیں وہ بنیادی انسانی اقدار جو ہمارے درمیان مشترک ہیں۔ ہمارے وجود کے ان گہرے اور پاءدار حقاءق کے اوپر مذہب، لسان، اور تمدن کا ملمع تو بہت ہلکا ہے۔ پھر اس قلعی کو زندگی اور موت کا مسءلہ بنا لینا کہاں کی عقل مندی ہے؟

Labels: , , , , , ,


 

کشمیر میں آزادی کی بلند ہوتی صداءیں




لوگوں کا ایک دوسرے کے ساتھ ایک معاشرے میں رہنا ایک قدیم عمل ہے۔ اور جب کبھی بہت سارے لوگ ایک ساتھ رہیں تو سوال اٹھتا ہے کہ ان کے مشترکہ معاملات کو کس کے حکم سے چلایا جاءے۔ کون یہ فیصلہ کرے کہ کونسا عمل ٹھیک ہے اور کونسا لاءق سزا؟ لوگوں کی ایسی ایک جماعت جو پورے معاشرے کے لیے ایسے فیصلے کرے حکومت کہلاتی ہے۔ تاریخی طور پہ حکومت کا سربراہ ایک مطلق العنان شخص ہوتا تھا جو کبھی معمولی مشاورت سے اور اکثر عقل کل بنا امور ریاست چلایا کرتا تھا۔ ایسے شخص کو کہیں بادشاہ، کہیں سلطان، کہیں راجہ، اور کہیں ناءب خدا کہا جاتا تھا۔ ایسا مطلق العنان سربراہ مملکت سلطان آءین ہوا کرتا تھا۔ مملکت کا قانون اس کے تابع تھا۔ وہ جسے چاہے سزا دے جسے چاہے معاف کردے۔
پھر زمانہ آگے بڑھا، چھاپہ خانہ ایجاد ہوا اور ایسے عوام کو جن میں بہت سارے پڑھے لکھے لوگ شامل ہوں شاہی نظام تلے قابو میں رکھنا مشکل ہوگیا۔ سلطانی جمہور کا زمانہ آیا۔ آءین، ملک کے ہر فرد سے بلند تر قرار پایا۔ یہ طے پایا کہ معاشرے میں قانون کی بالادستی ہوگی۔ اعلی سے اعلی عہدے پہ فاءز شخص قانون کے تابع ہوگا۔ اور قوانین جمہور کی مرضی سے بنیں گے۔ امور مملکت چلانے کے معاملے میں عوام کی مرضی جمہوری نظام سے حاصل کی جاءے گی۔ جمہوری نظام حکومت و نظام تشکیل قوانین یا عام فہم زبان میں جمہوریت وہ طریقہ ہے جس میں ریاست کا ہر فرد ووٹ کے ذریعے ایسے نماءندے منتخب کرتا ہے جو قانون سازی کا کام کرتے ہیں اور حکومت کی باگ دوڑ سنبھالتے ہیں۔ اس طریقہ حکومت میں احتساب کا سب سے موثر اور اکثر حالات میں واحد ذریعہ انتخابات ہوتے ہیں۔ اگر منتخب نماءندے چننے کے معاملے میں لوگوں سے غلطی ہوگءی ہے تو وہ اگلے انتخابات میں اس غلطی کو نہیں دہراءیں گے اور دوبارہ ان لوگوں کو منتخب نہیں کریں گے جنہوں نے اپنے طرز عمل سے انہیں مایوس کیا ہے۔

تو اگر جمہوریت ایسا ہی صاف شفاف دھلا دھلایا سوچا سمجھا نظام حکومت ہے تو پھر کءی ممالک میں جمہوریت ناکام کیوں نظر آتی ہے؟ اور بالخصوص وہ کونسے حالات ہیں جب کسی جمہوری ملک میں رہنے والے لوگوں کا ایک گروہ آزادی کا مطالبہ کرتا ہے۔ اور بظاہر یہ بات عجیب معلوم دیتی ہے۔ جب ایک جمہوری نظام میں ہر شخص کی مرضی ہی سے امور مملکت چلاءے جا رہے ہیں تو آخر کوءی شخص کیوں چاہے گا کہ ایسے اچھے نظام سے نکل جاءے؟ مگر عجیب معلوم دینے کے باوجود اضطراب کی ایسی مثالیں بہتیری ہیں۔ پاکستان کے مقابلے میں ہندوستان میں جمہوری روایت مستحکم ہے۔ انگریز کے جانے کے بعد ہندوستان میں قاءم ہونے والا جمہوری نظام بغیر کسی رکاوٹ کے چل رہا ہے۔ اس کے باوجود منی پور، ناگالینڈ، آسام، کشمیر، اور دوسرے کءی علاقے ہندوستان سے آزادی چاہتے ہیں۔

پرانی دنیا میں کءی جگہوں پہ جمہوری نظام کی ناکامی پرانی دنیا کے تنوع آبادی کی وجہ سے ہے۔ جمہوریت اعداد کا کھیل ہے چنانچہ ایسی جگہ جہاں لوگوں کے مختلف گروہ رہتے ہوں جمہوریت گروہی اختلافات کا میدان بن سکتی ہے۔ اکثریتی گروہ اپنی عددی برتری کی وجہ سے حکومت پہ چھا جاتا ہے اور اس بات کا کوءی امکان نہیں رہتا کہ کوءی بھی اقلیتی گروہ شماریات کی یہ جنگ کبھی جیت پاءے گا۔ جب کبھی اقلیتی گروہ ایسی زیادتی اور دھاندلی محسوس کرتا ہے وہ آزادی کا مطالبہ کرتا ہے۔
جمہوری نظام اور سلطانی نظام میں سب سے بڑا فرق یہی ہے کہ جمہوری نظام جمہور یا عوام کی خوشی چاہتا ہے جب کہ سلطانی نظام میں سلطان کی خوشی ساری باتوں پہ مقدم ہے۔ یہ بادشاہوں کا طریقہ کار تھا کہ وہ بڑی سے بڑی ریاست قاءم رکھنے پہ فخر محسوس کرتے تھے۔ کسی بادشاہ کے لیے یہ بات باعث افتخار ہوتی تھی کہ اس کا سکہ کتنی دور تک چلتا ہے۔ کسی بھی جمہوری ملک کا اولین مقصد یہ ہرگز نہیں کہ بڑے سے بڑا علاقہ اس کے زیر اثر آجاءے۔ جمہوری نظام حکومت کا اولین مقصد تو لوگوں کی خوشی ہے۔جمہوریت کا مطلب ہی لوگوں کی آرا کو سننا اور ان کو اہمیت دینا ہے۔ لوگوں کو ڈنڈے کے زور پہ کسی جمہوری مملکت کا حصہ بناءے رکھنا اپنے اندر شدید نظریاتی تضاد رکھتا ہے۔ چنانچہ کسی جمہوری ملک میں جب ایک علاقے کے رہنے والے لوگ آزادی کا مطالبہ کریں تو ان کی بات غور سے سنی جاءے اور اور اگر یہ آواز علاقے کی اکثریت کی آواز ہو تو اسے مانا جاءے اور جمہوری مملکت جمہور کی راءے کا احترام کرتے ہوءے اپنی سرحدات سکیڑے اور مذکورہ علاقے کی آزادی کا مطالبہ تسلیم کرے۔

تصویر بشکریہ
http://ibnlive.in.com

Labels: , , , ,


This page is powered by Blogger. Isn't yours?