Sunday, August 23, 2009

 

رمضان: کام چوری کا مہینہ






رمضان: کام چوری کا مہینہ

تحریر: ناصر عباس مرزا
ترجمہ: علی حسن سمندطور

ہمیں اچھی طرح معلوم ہے کہ دنیا کس طرح کام کرتی ہے۔ اس معاملے میں ہم اس چھوٹے لڑکے کی طرح ہیں جس نے گڑگڑا کر دعا کی کہ اللہ تعالی اسے ایک سائیکل دے دے۔ اور جب لڑکے کو اندازہ ہوا کہ اللہ تعالی اس طرح براہ راست چیزیں لوگوں میں تقسیم نہیں کرتا تو لڑکے نے ایک سائیکل چرا لی اور پھر خدا سے دعا کی کہ اس کا گناہ معاف کردیا جائے۔
======
یکم رمضان سے دس محرم تک، تقریبا چار ماہ بنتے ہیں۔ اس مدت میں پاکستان میں کوئی کام کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ ان سالانہ چھٹیاں میں عبادت گزار اور وہ فراڈیے جو اپنے آپ کو عبادت گزار دکھانا چاہتے ہیں، کام سے چھٹکارا حاصل کرتے ہیں۔
یوں تو ہم پاکستانی کبھی کام اور سخت محنت کے لیے مشہور نہیں رہے، مگر سالانہ چھٹیوں کہ ان چار ماہ میں ہم اتنا کم کام کرتے ہیں کہ سال کے بقیہ آٹھ مہینوں میں کیا جانے والا کام بہترین اور چکا چوند کرتا نظر آتا ہے۔
رمضان میں کام کے اوقات نو سے ایک ہوتے ہیں، یعنی کل چار گھنٹے۔ اور ان چار گھنٹوں میں کم ہی لوگوں کا دھیان کام کی طرف ہوتا ہے۔ کسی بھی سرکاری دفتر میں چلے جائیے آپ کا واسطہ ایک چڑچڑے، کاہل، اور زندگی سے عاجز شخص سے پڑے گا جس کے منہ سے بدبو آرہی ہوگی۔ آپ کا کام کس قدر بھی اہم اور ضروری کیوں نہ ہو آپ کو کہا جائے گا کہ آپ ڈھائی ماہ بعد محرم کے تیسرے ہفتے میں واپس تشریف لائیں۔ آپ کا واسطہ جس شخص سے پڑا ہے وہ کام کے موڈ میں ہرگز نہیں ہے۔ اس کا دل ہے کہ وہ فورا سے پیشتر گھر جائے اور بقیہ روزہ ہندوستانی فلم دیکھتے ہوئے گزارے۔
یہ روزہ دار، اور اس جیسے لاکھوں دوسرے، چاہتے ہیں کہ روزہ رکھنے پہ پوری دنیا ان کی شکرگزار ہو۔ بنی نوع انسان کو اس شخص کا احسان ماننا چاہیے کہ یہ شخص اس قدر عبادت گزار ہے۔ آپ کو اس شخص سے الجھنے کا خیال بھی دل میں نہیں لانا چاہیے۔
رمضان میں کسی کو کام کے لیے اکسانا ایک گناہ ہے کیونکہ روزہ دار کی عبادت میں خدا کی رضا اور قہر شامل ہے۔ ممکن ہے کہ آپ دل چاہے کہ آپ کام چور لوگوں کو ڈنڈے کے زور پہ کام کے لیے اکسائیں، مگر ایسا کرنا آپ کے لیے سخت خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ آپ کو جلا کر مارا جا سکتا ہے، یا زندہ درگور کیا جا سکتا ہے، ممکن ہے کہ گولی مار کر آپ کا کام تمام کیا جائے، جیسا نجیب ظفر کے ساتھ کیا گیا تھا۔ نجیب ظفر مریدکے میں چمڑے کا کارخانہ چلاتا تھا۔ اس کا قصور یہ تھا کہ وہ جمعے کی نماز کی مد میں لمبی چھٹی مارنے والوں کو کام کے لیے اکساتا تھا۔
رمضان میں کام کے علاوہ سب کچھ ہوتا ہے۔ مساجد میں حاضری بڑھ جاتی ہے؛ تراویح، محافل، اور درس روز کا معمول ہوتے ہیں۔ کیونکہ سال کے بقیہ گیارہ ماہ ہم چوری چکاری میں گزارتے ہیں اس لیے رمضان میں خدا سے اپنے گناہوں کی مغفرت طلب کرتے ہیں کہ آخر کار رمضان مغرفت کا مہینہ ہے۔
افطار پارٹیاں تو ایک عرصے سے فیشن میں رہی ہیں مگر اب سحری پارٹی بھی آگے بڑھ رہی ہے۔ ریستوراں ساری رات کھلے رہتے ہیں۔ سحری پارٹی میں لوگوں سے میل ملاپ کریں اور پھر پڑ کر لمبا سوئیں۔ دفاتر اور کارخانوں میں لوگوں کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ "آپ عید کے بعد آئیے گا۔"
دکھاوے کی تمام تر عبادت اور ہلے گلے کے باوجود ہم رمضان میں اچھے انسان ہرگز نہیں بنتے۔ ہم ایسا کر ہی نہیں سکتے۔ ہم رمضان میں بھی وہی کرتے ہیں جو بقیہ سال کرتے ہیں: چوری چکاری، دروغ گوئی، اور لوٹ کھسوٹ۔ رمضان کی برکت یہ ہے کہ اس ماہ میں ہم خدا سے سب کچھ بخشوا سکتے ہیں۔ ہمیں اچھی طرح معلوم ہے کہ دنیا کس طرح کام کرتی ہے۔ اس معاملے میں ہم اس چھوٹے لڑکے کی طرح ہیں جس نے گڑگڑا کر دعا کی کہ اللہ تعالی اسے ایک سائیکل دے دے۔ اور جب لڑکے کو اندازہ ہوا کہ اللہ تعالی اس طرح براہ راست چیزیں لوگوں میں تقسیم نہیں کرتا تو لڑکے نے ایک سائیکل چرا لی اور پھر خدا سے دعا کی کہ اس کا گناہ معاف کردیا جائے۔
رمضان کے اصل مقصد کے برخلاف یہ ماہ ہمارے لیے زیادتی کا مہینہ ہوتا ہے۔ چاہے وہ عبادت کی زیادتی ہو، اسراف ہو، یا پرخوری۔ افطار سے سحری کے دوران لوگ تین کھانے کھاتے ہیں، اور تینوں انتہائی غیر صحت بخش۔ ان تین کھانوں میں تین چیزوں کی زیادتی ہوتی ہے: شکر کی، آٹے کی، اور تیل کی۔
رمضان میں خدائی فوج دار ہر جگہ نظر آتے ہیں۔ روزے کے دوران کھانے پینے والا کوئی شخص، یا فوری تیار اشیائے خوردونوش بیچنے والا بالموقع سزا کا حق دار ہوتا ہے۔ عبادت گزار کسی بھی موقع پہ غصے میں آکر سب کچھ درہم برہم کر سکتے ہیں۔ نماز پڑھنے کے لیے ہوائی جہاز کی گزرگاہوں، انتظار گاہوں، ریلوے کے پلیٹ فارم اور مصروف شاہ راہوں کو بند کیا جا سکتا ہے۔ اور ہے کسی کی مجال جو ایسا کرنے والوں کو روکے؟
مختصر یہ کہ رمضان کے اول بیس دن ہر روز تین سے چار گھنٹے کام ہوتا ہے۔ آخری عشرے میں متمول عبادت گزار عمرے کے لیے روانہ ہو جاتے ہیں، دوسرے اعتکاف میں بیٹھ جاتے ہیں۔
رمضان کے اختتام پہ قوم سات سے دس دن کی چھٹیاں مناتی ہے۔ پھر لوگ رفتہ رفتہ کام کی طرف رجوع ہونا شروع ہوتے ہیں۔ مگر چند ہی ہفتوں میں حج اور بقرعید کا موسم شروع ہو جاتا ہے اور یوں کام سے پھر چھٹی ہوجاتی ہے۔
====
اصل مضمون یہاں ملاحظہ فرمائیں:
http://www.dailytimes.com.pk/default.asp?page=2009\08\23\story_23-8-2009_pg3_6

Labels:


This page is powered by Blogger. Isn't yours?