Wednesday, January 07, 2009

 

ایک لڑکا





یہ غالبا سنہ انیس سو چوالیس کی بات ہوگی۔ کلکتہ کا ایک متمول خاندان اپنی گاڑی پہ کہیں جا رہا تھا کہ نہ جانے کہاں سے سامنے ایک چارسالہ لڑکا آگیا۔ اس لڑکے نے سڑک پار کرنے کی بے قراری میں نہ دائیں دیکھا تھا اور نہ بائیں، بس دوڑ لگا دی تھی۔ گاڑی چلانے والے آدمی نے فوری طور پہ گاڑی کو ایک طرف موڑ کر گاڑی کو لڑکے سے ٹکرانے سے بس بال بال بچایا۔ گاڑی چلانے والا اگلے دو تین منٹ تک منہ ہی منہ میں اس لڑکے کو بہت سخت سست کہتا رہا تھا۔ اس شخص کو نہ تو یہ معلوم تھا کہ وہ لڑکا کون ہے، نہ یہ کہ لڑکے نے اتنی سرعت میں سڑک کیوں پار کی، اور نہ ہی یہ کہ ایک دن وہ لڑکا بڑا ہو کرکیا بنے گا۔ چار سال کے لڑکے تو بس یوں ہی ہوتے ہیں۔ سڑک کے ایک طرف چل رہے ہوں اور انہیں سڑک کے دوسری طرف اچانک اپنا باپ دکھائی پڑے تو باپ سے ملنے کی والہانہ جستجو میں بس دوڑ لگا دیتے ہیں۔ کہ عمر کے اس دور میں محبت کے برملا اظہار کو مصلحتوں کی لگام نہیں لگائی جاتی۔

لکھنئو کے ایک گھر میں دو لڑکے استانی سے قاعدہ پڑھ رہے تھے۔ اچانک دروازہ کھلا، اور محلے کا ایک لڑکا اندر داخل ہوا۔ اس نے استانی کے بالکل پاس جا کر دبے الفاظ میں کچھ کہا۔ بات کچھ ایسی تھی کہ اس بات کے سنتے ہی استانی کے چہرے کا رنگ اڑ گیا۔ قاعدہ پڑھنے والے دونوں لڑکوں نے قاعدہ پڑھنا چھوڑ دیا تھا اور اس کاروائی کو بغور دیکھ رہے تھے۔ استانی نے قاعدہ پڑھنے والے دونوں لڑکوں سے کہا کہ وہ فورا گھر چلے جائیں۔ کیوں؟ ابھی گھر کیوں جائیں، ابھی تو آج کا سبق ختم نہیں ہوا۔ ان میں سے ایک نے استانی سے پوچھا۔ تم لوگ اس لیے گھر جائو کیونکہ تمھارے ابو کا انتقال ہو گیا ہے، محلے کے لڑکے نے بات صاف صاف ان دونوں بھائیوں کو بتا دی۔ پھر یہ دونوں گھر کی طرف دوڑے۔ باہر بارش ہو رہی تھی۔ دونوں بھائی کیچڑ میں پھسلتے، زارزار روتے گھر پہنچے۔ دوسری جماعت میں پڑھنے والے اس لڑکے کے لیے یہ باپ کا انتقال موت کی حقیقت سے سامنا کرنے کا پہلا تجربہ تھا۔ خوش قسمت ہوتے ہیں وہ لوگ جنہیں موت کے بارے میں علم یوں رفتہ رفتہ ہو کہ گزر جانے والے لوگوں سے پیدا ہونے والا خلا ان کی زندگیوں میں بھونچال نہ لے آئے۔کہ پہلے وہ کسی دور دراز کے رشتہ دار کی موت دیکھیں، پھر اپنے گھر میں موت سے ان کا سامنا دادا، دادی، نانا، نانی کی رحلت کی صورت میں ہو۔ مگر اس لڑکے کے لیے معاملہ دوسرا تھا۔اس کے لیے باپ کے مرنے کی خبر نہ صرف موت سے اس لڑکے کی پہلی شناسائی تھی بلکہ اس مرکزی کردار کی غیر موجودگی سے پیدا ہونے والا خلا ایک ایسا معاشی بحران لے کر آرہا تھا جس سے اس لڑکے کو اپنی زندگی میں طویل مدت تک نبردآزما رہنا تھا۔ استانی نے اس روز لڑکے کو گھر تو روانہ کر دیا مگر اسے یہ معلوم نہ تھا کہ اب یہ لڑکا واپس پڑھنے نہ آئے گا کہ گھر چلانے کی مالی ذمہ داری کا بوجھ اس لڑکے کے ناتواں کندھے پہ بھی ڈالا جائے گا۔

مول چند کا شمار ڈھلائی کے ماہر کاریگروں میں ہوتا تھا۔ اسے آپ کوئی مشکل سے مشکل کام دیں وہ دھات پگھلا کر، اسے سانچے میں ڈھال کر، ہتھوڑے سے چوٹیں مار کر آپ کو آپ کی مطلوبہ چیز بنا کر دے دے گا۔ مول چند کے ڈھلائی کے کارخانے میں بہت سے "چھوٹے" کام کرتے تھے۔ یہ چھوٹے مول چند سے ڈھلائی کا کام سیکھتے اور اس سیکھنے کے ساتھ ساتھ کام میں مددگار ہونے کے ناتے انہیں ایک معمولی معاوضہ بھی دے دیا جاتا۔ ایک روز ایک عورت برقعہ پہنے دو کم سن لڑکوں کو تھامے مول چند کے کارخانے پہ آئی۔ عورت نے مول چند سے درخواست کی کہ مول چند دونوں لڑکوں کو اپنے کارخانے پہ رکھ لے۔ مول چند نے کچھ چوں چراں کی کہ اس کے کارخانے پہ پہلے ہی کئی لڑکے کام سیکھ رہے تھے مگر پھر اس نے عورت کی مالی مصیبت کو بھانپ کر دونوں بھائیوں کو اپنے کارخانے پہ رکھنے پہ حامی بھر لی۔ عورت دونوں لڑکوں کو مول چند کو سونپ کر گھر روانہ ہو گئی۔ لڑکوں نے کسی قدر خوفزدہ نظروں سے مول چند کی طرف دیکھا مگر جب مول چند نے ان سے شفقت کا سلوک کیا اور ان کو نرم رویے سے کام سمجھایا تو یہ دونوں مول چند سے اور ڈھلائی کے کارخانے سے مانوس ہوتے گئے۔ پھر دونوں لڑکوں کا یہ معمول بن گیا کہ وہ صبح ناشتہ کرنے کے بعد فورا مول چند کے کارخانے پہ پہنچ جاتے اور کارخانے کے بند ہونے تک وہاں کام کرتے۔
مول چند ان دونوں بھائیوں کو تندہی سے کام میں جٹا دیکھ کر سوچتا کہ یہ دنیا ایسی ہی جگہ ہے۔ یہاں وہ لوگ ہیں جن کا تعلق کتابوں سے ہے اور جو آرام کی زندگی بسر کرتے ہیں۔ وہ صاب لوگ ہیں۔ اور پھر دوسرے مول چند جیسے لوگ ہیں جو مستقل ہاتھ سے کام کرتے ہیں۔ یہ دونوں بھائی اگر پڑھ رہے ہوتے تو ایک دن معاشرے کے اول طبقے میں جا شامل ہوتے۔ مگر قسمت نے ان کا ساتھ نہ دیا تھا۔ اب یہ میرے کارخانے پہ ڈھلائی کا کام سیکھ رہے ہیں اور یہ معاشرے کے اسی طبقے کا حصہ بنے رہیں گے۔ اور پھر ایک دن جب یہ بڑے ہوں گے تو شاید ان کا اپنا ڈھلائی کا کارخانہ ہو جہاں دوسرے بد نصیب بچے ان سے کام سیکھنے آئیں۔ مگر مول چند کو یہ معلوم نہ تھا کہ جب بھٹیاں جھونکتے ہوئے ان لڑکوں کی آنکھوں سے آنسو نکلتے ہیں تو ان آنسوئوں میں کچھ تو کوئلے کے دھوئیں سے نکلے ہوتے ہیں اور کچھ اس خیال سے کہ وہ لڑکے اپنے حال پہ نالاں ہیں اور اس موقع کی تلاش میں ہیں جب وہ ایک بار پھر اپنا تعلق کتابوں سے استوار کر لیں گے۔
====

ہر بچہ اپنی پیدائش پہ زندگی کے لاتعداد امکانات کے سامنے کھڑا ہوتا ہے۔ پھر جیسے جیسے عمر گزرتی ہے حوادث، تجربات، اور انسان کے اندر کی آگ اس کی راہ متعین کرتے جاتے ہیں۔ پھر عمر کے ساٹھ سے زیادہ سال گزارنے کے بعد کل کا یہ بچہ پلٹ کر اپنی زندگی کو دیکھتا ہے تو اپنی ہر کامیابی اور ہر ناکامی کو ایک تمغہ جانتا ہے۔ یہ وہ ساری باتیں، سارے تجربات ہیں جو صرف اس شخص کا ماضی نہیں ہیں بلکہ اس کا تعارف ہیں۔ ہمارے دور کے نامور شاعر جناب جاذب قریشی صاحب آج اپنی زندگی کو پلٹ کر دیکھیں تو انہیں کلکتہ کی ایک مصروف سڑک پہ حادثے سے بچنا، کم سنی میں باپ کی شفقت سے محروم ہوجانا، مول چند کے ڈھلائی کے کارخانے پہ کام کرنا، سمیت بہت سے حوادث، بہت سے واقعات یاد آتے ہیں۔اور ان حوادث کے ساتھ ساتھ ان کی ہر تصنیف کی اشاعت ایک تمغہ ہے جو ان کے سینے پہ جڑا ہے۔ جاذب قریشی صاحب ان تمغات کی قطار اپنے سیے پہ سجائے چلتے ہیں اور اپنی شاعری میں اپنے محسوسات کو بہت ایمانداری سے لکھ دیتے ہیں۔ میں جاذب قریشی صاحب سے استفادہ کرنے پہ اپنے آپ کو خوش قسمت خیال کرتا ہوں۔

جاذب قریشی صاحب کی مطبوعات درج ذیل ہیں۔
تخلیقی آواز
آنکھ اور چراغ
شاعری اور تہذیب
دوسرے کنارے تک
میری تحریریں
میں نے یہ جانا
پہچان
نیند کا ریشم
شیشے کا درخت
آشوب جاں
اجلی آوازیں
شکستہ عکس
شناسائی
جھرنے
عقیدتیں
مجھے یاد ہے
نعت کے جدید رنگ
میری شاعری، میری مصوری





Labels: , , , ,


This page is powered by Blogger. Isn't yours?