Thursday, August 28, 2008

 

تجھے تجھ سے جدا دیکھا نہ جائے






فراز اس دنیا سے گزر گئے۔
اب صرف فراز کی یادیں ہیں۔
ایک یاد مہران ریستوراں، نو ارک سے متعلق ہے۔ فراز کے ساتھ ایک شام منائی جا رہی ہے۔ سال غالبا 2003 ہے۔ فراز اسٹیج پہ ہیں اور لوگوں کی فرمائش پہ اپنی چنیدہ شاعری سنا رہے ہیں۔ کچھ کچھ دیر کے بعد وہ اپنی شاعری بھول جاتے ہیں۔ مگر مدد موجود ہے۔ سامعین میں سے کئی ہیں جنہیں فراز کی شاعری حفظ ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے فراز کی شاعری کے ساتھ شعور کی منازل طے کی ہیں۔ جن لطیف احساسات کو، جن جذبات کو یہ لوگ کبھی الفاظ میں نہ ڈھال پائے تھے، فراز نے ان احساسات ان جذبات کو بہترین الفاظ کا لبادہ اوڑھا کر اس خوبصورتی کو دینا کے حوالے کیا ہے۔

پھر ایک اور یاد ہے ایک نجی محفل کی۔ یہ جون 2007 کی بات ہے۔ عینی اختر کا گھر ہے۔ عینی اختر کی دعوت پہ اس علاقے کے کئی سخن ور فراز سے ملنے پہنچے ہیں۔ رات کا کھانا ہو چکا ہے۔ فراز کے ایک ہاتھ میں گلاس ہے اور دوسرے ہاتھ میں سگریٹ۔ پاکستان کی سیاست پہ باتیں ہو رہی ہیں۔ پاکستان میں وکلا کی تحریک چل رہی ہے۔ فراز پاکستان کے مستقبل کے متعلق تشویش میں ہیں، وہ سیاست میں فوج کی مداخلت پہ نالاں ہیں اور کور کمانڈروں کو چور کمانڈر کہتے ہیں۔

پھر فراز سے متعلق آخری یاد یہ ہے کہ عینی اختر کے ساتھ ایک ملاقات میں منصوبہ بنایا جا رہا ہے کہ کس طرح فراز کی جون یا جولائی ميں کیلی فورنیا آمد پہ ایک سی ڈی کا اجرا کیاجائے گا۔
پھر کچھ ہی عرصے میں یہ خبر ہے کہ فراز شکاگو میں ہیں اور موت و زیست کی کشمکش میں ہیں۔
اور پھر کچھ دنوں کے بعد خبر ہے کہ انہیں پاکستان پہنچا دیا گیا ہے۔

اور پھر اگست 26 کے اخبار کی خبر ہے۔ ساتھ ایک تصویر ہے۔ ایک جنازہ رکھا ہے۔ لوگ نماز جنازہ کے لیے کھڑے ہیں۔

فراز اپنے سوا ہے کون تیرا
تجھے تجھ سے جدا دیکھا نہ جائے

Labels: , , ,


Saturday, August 09, 2008

 

اردشیر کاوس جی کا سچ



اس مختصر فلم میں پاکستان کے ممتاز صحافی، آردیشیر کاوس جی، کی کھری کھری باتیں سنیے۔ زیادہ دورانیے کی یہی فلم اسی نام سے گوگل ویڈیو پہ موجود ہے۔
[اردو میں کاوس جی صاحب کی نام کے دوسرے رائج تلفظات اردشیر کاوس جی، اردیشر کاوسجی اور اردشیر کاوسجی ہیں۔]
سمندطور

Labels: , , , , , , , , , , , , , ,


Monday, August 04, 2008

 





عافیہ صدیقی

امریکہ کی ایف بی آئی کا الزام ہے کہ باسٹن کی رھائشی پاکستانی نڎاد ڈاکٹر عافیہ صدیقی القاعدہ کی اہم رکن ہیں۔ عافیہ صدیقی امریکی شہری ہیں اور مشہور امریکی درس گاہ ایم آئی ٹی سے پڑھی ہوئی ہیں۔ وہ تین بچوں کی ماں ہیں۔ امریکی شہری ہونے کے ناتے عافیہ صدیقی کو بغیر کسی ثبوت کے امریکہ میں گرفتار کرنا محال تھا چنانچہ عافیہ صدیقی پہ اس وقت وار کیا گیا جب وہ اپنے خاندان والوں سے ملنے پاکستان گئی تھیں۔ وہ سارے غیر قانونی ہتھکنڈے جو امریکہ میں انسانی حقوق تنظیموں کے خوف سے نہیں اپنائے جا سکتے اس ملک سے باہر اپنی حلیف حکومتوں کے ذریعے دھڑلے سے استعمال کیے جاتے ہیں۔ چنانچہ پاکستان کی کسی خفیہ ایجینسی نے مارچ ۲۰۰۳ میں عافیہ صدیقی کو اپنے والدین کے گھر سے کراچی ائیرپورٹ جاتے ہوئے --یا ہوائے اڈے پہ-- اغوا کر لیا۔ اس وقت عافیہ صدیقی اپنے تین بچوں کے ہمراہ تھیں جن کی عمریں نو سال سے چھ ماہ تک تھیں۔ پانچ سال سے زائد کا عرصہ عافیہ صدیقی کے گھر والوں کے لیے عافیہ اور ان کے تین معصوم بچوں کے بارے میں غیر یقینی اور شدید ذہنی اذیت کی کیفیت میں گزرا ہے۔ گو کہ بہت سی واضح نشانیوں کی وجہ سے عافیہ صدیقی کے گھر والوں اور دوسرے لوگوں کو شک تھا کہ عافیہ صدیقی یا تو کسی پاکستانی جیل میں ہیں، یا گوانتاناموبے میں یا دنیا کے کسی اور مقام پہ کسی خفیہ امریکی جیل میں، مگر پچھلے پانچ سالوں میں پاکستانی اور امریکی ادارے مستقل یہ جھوٹ بولتے رہے کہ انہیں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے بارے میں کوئی خبر نہیں ہے۔ پچھلے ماہ برطانوی صحافی اوان رڈلی نے بیان دیا کہ عافیہ صدیقی افغانستان میں بگرام ہوائی اڈے کی حدود میں موجود امریکی جیل کے اندر ہیں، اور یہ کہ وہ پاگل ہو چکی ہیں اور ان کی مستقل دلدوز چیخیں دور دور تک سنائی دیتی ہیں۔ رڈلی کے اس بیان نے پاکستان میں اور پاکستان کے باہر تہلکہ مچا دیا اور دو دن قبل ایف بی آئی نے بالاخر اعتراف کیا کہ عافیہ صدیقی ادارے کی حراست میں ہیں۔
ہم انسانی حقوق کے تمام علم برداروں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ عافیہ صدیقی کی غیر قانونی حراست کے خلاف آواز اٹھائیں۔ اگر عافیہ صدیقی پہ دہشت گردی میں ملوث ہونے کے ثبوت ہیں تو ان ثبوتوں کو کھلی عدالت ميں پیش کیا جائے اور عافیہ صدیقی کو اپنے دفاع کی اجازت دی جائے۔

تازہ بہ تازہ: ایف بی آئی نے ابھی ابھی اپنی ویب سائٹ پہ پریس ریلیز لگائی ہے کہ عافیہ صدیقی کو نیویارک لایا گیا ہے اور کل یعنی اگست پانچ کو وہ نیویارک کی ایک عدالت میں پیش کی جائیں گی۔ حکومتی پریس ریلیز یہاں ملاحظہ فرمائیں:
http://www.usdoj.gov/opa/pr/2008/August/08-nsd-687.html

Labels: , , , , ,


Friday, August 01, 2008

 

نیر زیدی کہاں ہیں؟



نیر زیدی کہاں ہیں؟


کئی دنوں سے معروف صحافی نیر زیدی صاحب کے متعلق عجیب و غریب خبریں اخبارات اور مختلف ویب سائٹ پہ گردش میں تھیں۔ نیر زیدی صاحب جب جنوری میں سان فرانسسکو بے ایریا آئے تھے تو ان سے ملاقات رہی تھی اور اس ذاتی راہ و رسم کی وجہ سے مجھے زیدی صاحب کی خیریت سے متعلق فکر تھی۔
چنانچہ آج صبح میں نے ادھر ادھر فون گھمائے اور یہ معلوم کرنے کی کوشش کی نیر زیدی صاحب اس وقت کہاں ہیں۔
میں فون پہ نیر زیدی صاحب ..جن کا اصل نام سید حیدر کرار زیدی ہے، قلمی نام نیر زیدی ہے.. کا پتہ کرتے کرتے اسٹارک کائونٹی شیرف جیل کے دفتر تک پہنچا۔ اس دفتر میں میری بات فون پہ پیریز نامی افسر سے ہوئی۔ میری درخواست پہ افسر پیریز نے سید زیدی کے نام سے ریکارڈ کھنگالے اور بتایا کہ زیدی صاحب مارچ 23 کو گرفتار ہوئے تھے اور مارچ 26 کو رہا کر دیے گئے۔ افسر پیریز نے بتایا کہ ہر گرفتار ہونے والے شخص کا ریکارڈ اسٹارک کائونٹی کی ویب سائٹ پہ دیکھا جا سکتا ہے:
www.starkcjis.org
اور اس مخصوص کیس کا نمبر
2008CRA00614
ہے اور کیس کی تفصیلات یہاں ہیں:
https://www.starkcountycjis.org/cjis/list_index_frame
میسیلن عدالت اور فوجداری مقدمہ منتخب کریں-
چنانچہ حتمی بات یہ ہے کہ ہاں زیدی صاحب مارچ میں گرفتار ہوئے تھے، مگر وہ تین دن کے بعد ہی چھوٹ گئے۔ وہ اس وقت کہاں ہیں، اس بات کا جواب ان کے گھر والے ہی دے سکتے ہیں۔




The latest on Nayyar Zaidi’s detention

Ohio’s Stark County Sheriff Department says Syed Haider Karar Zaidi (who writes under the penname of Nayyar Zaidi) was arrested on March 23, 2008, but was released on March 26, 2008. Information on Zaidi’s case (Case number: 2008CRA00614) can be obtained from Stark Country Sheriff Department’s web site:
https://www.starkcountycjis.org/cjis2/docket/main.html
[Check ‘criminal’ records under ‘Massillon’ court.]
This correspondent talked to Officer Perez of the Stark Country Sheriff Department who said Zaidi was charged with “pandering obscenity involving a minor.”
So why are some news reports claiming Nayyar Zaidi is still being detained?

Labels: , , ,


This page is powered by Blogger. Isn't yours?