Thursday, June 21, 2007

 

احمد فراز سے ایک ملاقات






پاکستان سے کوئی اہم شخصیت یہاں آئے تو پاکستانی نژاد لوگ فورا اس کے گرد جمع ہوجاتے ہیں۔ شاید امریکہ میں رہنے دوسرے ملکوں کے تارکین وطن بھی ایسا ہی کرتے ہوں گے۔
جناب احمد فراز صاحب ان دنوں سان فرانسسکو بے ایریا میں ہیں۔ وہ محترمہ عینی اختر کے گھر رہائش پذیر ہیں۔ کل عینی اختر کے گھر احمد فراز صاحب سے ایک اچھی ملاقات ہوئی۔ گو کہ عینی اختر کی خواہش تھی کہ موضوع گفتگو صرف اردو ادب اور شاعری رہے مگر پاکستان کے موجودہ سیاسی حالات میں اس بات کا کوئی امکان نہ تھا کہ چار پاکستانی ایک جگہ جمع ہوں اور سیاست پہ بات نہ ہو۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ زیادہ تر گفتگو پاکستان کے سیاسی حالات اور مستقبل پہ ہی ہوتی رہی۔ مجھے ایک ایسے احمد فراز کو جاننے کا موقع ملا جو پاکستان سے شدید محبت کرتا ہے، خون ریزی کے امکانات سے خائف ہے، اور ملک کی موجودہ جغرافیائی حدود میں کوئی ردوبدل نہیں دیکھنا چاہتا۔

مزید تصاویر یہاں دیکھیے:
http://karachiphotoblog.blogspot.com/

Labels:


Wednesday, June 20, 2007

 

اچھی حکومت کی تلاش



چند ہی روز پہلے میری بات فون پہ پاکستان میں ان لوگوں کے ساتھ ہو رہی تھی جن کے ساتھ میں آج کل کام کررہا ہوں۔ کراچی میں بلا کی گرمی پڑ رہی تھی اور اس کے ساتھ بجلی بارہ بارہ گھنٹے غائب تھی۔ میرے ساتھ کام کرنے والے وہ لوگ بہت پریشان تھے اور یہ پریشانی ان کا مقدر صرف اس لیے بنی ہے کہ وہ ایک نااہل حکومت کے زیراثر زندگی گزار رہے ہیں اور اپنے مخصوص حالات کی وجہ سے ملک سے باہر نہیں جا سکتے۔ بات کی تہہ تک جائیں تو دراصل ملک سے فرار ہونے والے ہم سب لوگ نااہل اور کم عقل حکمرانوں سے ہی تو بھاگے ہیں۔
زمانہ قدیم میں لوگ ایک اچھے بادشاہ کی دعا مانگا کرتے تھے۔
اچھا بادشاہ میسر آجائے تو رعایا خوش ہو جاتی تھی اور لوگ بادشاہ کی درازی عمر کی دعائیں مانگتے نہ تھکتے تھے۔ اور اچھا بادشاہ ہونے کی کسوٹی یہ نہ تھی کہ بادشاہ اپنے خزانے سے لوگوں کو مفت چیزیں بانٹے۔ بلکہ اچھا بادشاہ وہ تھا جس کے دور میں لوگ محفوظ محسوس کریں اور کوئی انہیں تنگ نہ کرے۔ لوگ محنت سے کام کرنا چاہیں اور حق حلال سے اپنا حصہ حاصل کرنا چاہیں تو انہیں ایسا کرنے دیا جائے۔ ایک ایسا بادشاہ جو اصول و قانون سے ملک کا انتظام چلائے اور انصاف سے حکومت کرے۔
پھر زمانہ آگے بڑھا اور یہ خیال ہوا کہ حاکم اپنی مرضی سے نہ آئے بلکہ ایک شوری کی مرضی سے چنا جائے۔ اور کم و بیش ایسا ہونے لگا۔ پھر بات اور آگے بڑھی، بادشاہت کا زمانہ ختم ہوا اور پڑھے لکھے لوگوں کو یہ بات سمجھ میں آ گئی کہ خاموشی سے بیٹھ کر ایک ایسے مطلق العنان کی راہ دیکھنا جو منصف بادشاہ بن کر حکومت کرے بہت بڑا جوا ہے۔ زیادہ بہتر یہ ہے کہ مشاورت کا ایسا وسیع نظام قائم کیا جائے جس میںسب کے مشورے سے ایک شخص کو محدود مدت کے لیے حکمرانی کا اختیار دیا جائے اور حکمران کو مسقل احتساب کے عدسے میں رکھا جائے۔ مشاورت کے اسی انتظام کا نام جمہوریت ہے۔
آج دنیا بھر میں لوگ زمانہ قدیم سے زمانہ جدید تک کے مختلف نظریات حاکمیت کے تحت اپنی زندگیاں گزار رہے ہیں۔
مگر نظام حکومت کسی طرز کا ہو، عوام کی توقعات وہی پرانی ہیں۔ انہیں ایسا حاکم چاہیے جو انصاف سے حکومت کرے، نظام مملکت چلانے کا اہل ہو، اور لوگوں کی راہ میں روڑے نہ اٹکائے۔
وہ سارے ممالک جہاں سے لوگ نکل نکل کر بھاگ رہے ہیں ایسے ہی ہیں جہاں حکومت نااہل اور غیر منصف ہے۔ تو سوال یہ ہے کہ ایسی جگہوں پہ کیا کام کیا جائے کہ وہاں کے لوگوں کو اس نااہلی سے بچا لیا جائے۔ اس سوال کے کئی جوابات ممکن ہیں۔ ایک جواب، ایک حل میرے پاس بھی ہے جو میں اس خیال کی اگلی قسط میں آپ کے سامنے پیش کروں گا۔


Saturday, June 09, 2007

 

پاکستان کے دو سیاست دانوں کے درمیان دلچسپ قانونی جنگ


پاکستانی سیاست دان عمران خان اس وقت لندن میں ہیں جہاں وہ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین پہ دہشت گردی کا مقدمہ چلانا چاہتے ہیں۔ عمران خان کا کہنا ہے کہ بارہ مئی کے روز کراچی میں ایم کیو ایم نے تحریک انصاف کے کارکنوں پہ گولیاں چلائیں اور انہیں ہراساں کیا۔ اور یہ سب کچھ الطاف حسین کے کہنے پہ کیا گیا۔
اگر انگلستان میں عمران خان کا مقدمہ الطاف حسین کے خلاف دائر ہو گیا تویہ پاکستان کے لیے ایک انوکھی بات ہوگی۔ اہل اقتدار تو اپنے حریفوں کے خلاف مقدمے کر کے انہیں کمزور کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں مگر دو حریف سیاست دان کے درمیان یہ قانونی جنگ ایسا پہلا تجربہ ہوگی۔
کوئی باشعور شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ مئی ۱۲ کی خونریزی میں ایم کیو ایم کا بہت بڑا حصہ نہیں ہے۔ کون یہ حقیقت فراموش کر سکتا ہے کہ وکیلوں کی ریلی دو ماہ سے طے تھی جب کہ ایم کیو ایم نے ٹھیک بارہ مئی کے روز ریلی کرنے کا فیصلہ صرف چار دن پہلے کیا؟ اسی دن ریلی کرنے کے فیصلے کے پیچھے دوسری ریلی کو دبانے کے علاوہ اور کیا خیال ہو سکتا تھا؟
اگر آپ کا تعلق کراچی سے ہے اور آپ نے پچھلے پندرہ سالوں میں کراچی میں بہت وقت گزارا ہے تو یہ بات یقینا آپ کے علم میں ہوگی کہ ایم کیو ایم کے اندر غنڈہ گرد عناصر بھرپور طریقے سے موجود ہے۔ ایم کیو ایم کی یہی وہ طاقت ہے جس سے کراچی کے لوگ خوفزدہ رہتے ہیں اور الطاف حسین پہ کسی قسم کی تنقید سے گھبراتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ایم کیو ایم خود اپنی تطہیر کرتی اور غنڈہ گرد عناصر کو جماعت سے باہر نکال دیتی۔ اب جب کہ ایم کیو ایم نے خود یہ کام نہیں کیا تو دوسرے یہ کام کر رہے ہیں۔ اور کراچی کے عوام کو اس بات پہ عمران خان کا شکر گزار ہونا چاہیے۔
اس بات کا امکان بہت کم ہے کہ الطاف حسین کے خلاف قانونی کاروائی کرنے سے کراچی میں ایم کیو ایم کا ووٹ بینک ٹوٹ جائے گا اور راتوں رات لوگ عمران خان کے ساتھ ہوجائیں گے۔ مگر اس بات کا یقینا امکان ہے کہ ایم کیو ایم کے اندر جو گندگی بھری ہےاس کی صفائی ہوگی اور یہ جماعت ایک عام آدمی کے لیے زیادہ قابل قبول ہوجائے گی۔

Labels: , , ,


Monday, June 04, 2007

 

آمریت کا ابھرتا اصل رنگ



پاکستان میں حکومت موجودہ سیاسی بحران سے اور عوام کی اس بحران سے بخوبی واقفیت پہ بوکھلائی نظر آتی ہے۔
ایک خبر کے مطابق وزیر اطلاعات محمد علی درانی نے ایک پریس کانفرینس میں کہا ہے کہ بعض نشریاتی ادارے آزادی صحافت کا غلط فائدہ اٹھا رہے ہیں اور موجودہ حکومت اور فوج کے خلاف زہر اگل رہے ہیں۔ خبر کے مطابق فوج کے متعلق بات کرتے ہوئے وزیر صاحب آبدیدہ ہو گئے اور انہوں نے کہا کہ پاک فوج کے جوانوں نے پاکستان کے دفاع میں اپنی جان کی قربانیاں دی ہیں، اس لیے فوج کی بے عزتی برداشت نہیں کی جائے گی۔

کوئی بھی صاحب عقل صاف دیکھ سکتا ہے کہ وزیر اطلاعات نے لوگوں کو بے وقوف بنانے کے لیے کس قدر عمدہ نفسیاتی حربہ کھیلا ہے۔پاکستانی فوج کے ایک اچھے کردار کو دوسرے شرم ناک کردار سے گڈ مڈ کرنے کی کوشش کی ہے۔ وزیر اطلاعات سے کوئی پوچھے کہ میڈیا میں بھلا کس نےراشد منہاس یا عزیز بھٹی شہید کی عزت مٹی میں ملانے کی کوشش کی ہے، وہ تو عظیم لوگ تھے۔ تنقید تو ان جرنیلوں پہ کی جاتی ہے جو وقفے وقفے سے ملک کی سیاست میں ٹانگ اڑاتے ہیں اور ملک میں جمہوریت کو پنپنے نہیں دیتے۔ یہ تو انتہائی حماقت کی منطق ہو گی کہ میجر طفیل محمد نے ۱۹۵۸ میں اپنی جان کی قربانی دی تھی اس لیے اب جرنل پرویز مشرف کی عزت کی جائے۔
بات اتنی ہے کہ اگر پاکستانی فوج کواپنی عزت کروانے کا شوق ہے تو وہ اپنا آئینی کردار پورا کرے اور ملک کی سیاست سے دور رہے۔

This page is powered by Blogger. Isn't yours?