Sunday, March 18, 2007

 

امرت سر میں ایک دن





میرا خواب پورا ہوا۔ میں نے جیسا چاہا تھا بالکل ویسا ہوا۔ میں ٹیکسی سے سرحد تک پہنچا اور پیدل سرحد عبور کی۔ سرحد پار کرنے کے بعد سائیکل رکشے سے اٹاری تک گیا اور پھر وہاں سے بس سے امرت سر۔

لاہور امرت سر کے مقابلے میں زیادہ گرم تھا۔ میرا خیال ہے کہ جس طرح عالمی گرمائش )گلوبل وارمنگ( کا عمل ہے، شاید اسی طرح ایک مقامی گرمائش کا بھی عمل ہے کہ جہاں کاربن ڈائی آکسائڈ والا دھواں زیادہ ہوتا ہے وہاں یہ دھواں ایک غلاف بنا لیتا ہے۔ دھوپ اس غلاف میں داخل تو ہو جاتی ہے مگر بڑی موج لمبائی والی گرمائش کی لہریں اس سے باہر نکل نہیں پاتیں اور غلاف کے اندر درجہ حرارت بڑھنے لگتا ہے۔ امرت سر میں کم دھوئیں کی وجہ یہ تھی کہ وہاں سائیکل رکشے بڑی تعداد میں ہیں )جب کہ لاہور میں موٹر رکشے ہیں اور ہر رکشہ خوب دھواں اڑاتا ہے(۔
امرت سر لاہور کے مقابلے میں سستا لگا۔ مجھے دوپہر کے کھانے میں نسبتا دیر ہو چکی تھی۔ میں بہت دیر تک ایک معقول جگہ کی تلاش میں مارا مارا پھرا۔ زیادہ تر ڈھابے )کھانے کی چھوٹی دکانیں( لب سڑک تھے اور مجھے خیال تھا کہ وہاں کھانوں پہ خوب دھول مٹی اڑ کر گئی ہوگی۔ میں ایک ایسے ڈھابے کی تلاش میں تھا جو کسی قدر اندر کی طرف ہو۔ بالاخر مجھے ایک ایسی جگہ مل گئی۔ میری پنجابی انتہائی مخدوش ہے مگر میں ڈٹا رہتا ہوں اور ٹوٹی پھوٹی پنجابی بول کر اپنا کام چلا لیتا ہوں۔ مجھے بتایا گیا کہ کھانے میں کلچے ہیں۔ اور کلچے کس کے ساتھ کھائے جائیں گے؟ چھولے بھی ہیں اور دال بھی۔ میں نے کلچے کو چھولے کے ساتھ کھانے کی خواہش ظاہر کی۔ قیمت؟ صرف دس روپے۔ ڈھابا چلانے والے نے کلچہ تندور میں گرم کر کے دیا اور ساتھ اوپر سے مکھن بھی رکھ دیا۔

مجھے علم نہیں کہ اتنا اچھا کھانا پاکستان میں پندرہ روپے میں کہاں مل پائے گا۔

مزید تصاویر آپ یہاں دیکھ سکتے ہیں:
http://karachiphotoblog.blogspot.com


This page is powered by Blogger. Isn't yours?